کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 338
وفات کے وقت صرف ایک صاحبزادے محمد کو چھوڑ کر مولانا نے انتقال کیا۔ یہ صاحبزادے بھی چمنستانِ حیات کی زیادہ بہاریں نہ دیکھ سکے اور چند برس بعد ۸، ۹ برس کی عمر میں مولانا کی یہ صلبی یادگار بھی دنیا سے چلی گئی۔ آہ! کل من علیھا فان۔ وفات: جیسا کہ عرض کیا گیا ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کا تاسیسی جلسہ جاری تھا کہ مولانا مرضِ طاعون میں مبتلا ہوئے۔ لوگوں نے برخواستِ جلسہ کی تجویز پیش کی لیکن تبلیغِ احکام اور ذکرِ خیر کے خیال سے اس تجویز سے مولانا متفق نہ ہوئے اور فرماتے رہے کہ ’’اگر جلسہ برخواست ہوا تو میری پشت قبر میں نہیں لگے گی۔‘‘ بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے بھی شریکِ جلسہ رہتے۔ جلسہ ختم ہونے کے تین دن بعد بروز پیر ۲۶ شوال المکرم ۱۳۲۲ھ / ۱۹۰۴ء کو انتقال فرمایا۔[1] دبستانِ نذیریہ کے اس عظیم رکن نے گو مختصر عمر پائی، لیکن عظمت و عزیمت کی روشن مثال قائم کی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین[2] 
[1] حبیب الرحمن کٹونوی نے اپنے مضمون میں سالِ وفات ۱۳۲۳ھ/ ۱۹۰۵ء لکھی ہے، جو محض تسامح ہے۔ مولانا عبدالسلام مبارک پوری شعبان ۱۳۲۳ھ کے مطبوع مضمون میں مولانا عبد البر کو مرحوم لکھ رہے ہیں ۔ ان کی تاریخِ وفات بھی انھوں نے ۲۶ شوال ۱۳۲۲ھ صراحتاً لکھی ہے۔ [2] مولانا عبد البر عظیم آبادی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ماہنامہ ’’ضیاء السنۃ‘‘ (کلکتہ) شعبان ۱۳۲۳ھ (مضمون نگار: مولانا عبد السلام مبارک پوری)، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱ نومبر ۱۹۲۲ء (مضمون نگار: حبیب الرحمن کٹونوی)، اصحابِ علم و فضل (ص: ۲۲۶)، ماہنامہ ’’محدث‘‘ (بنارس) جولائی ۲۰۰۱ء (مضمون نگار: مولانا محمد مستقیم سلفی)