کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 337
’’عیدین میں دو خطبے پڑھنا مسنون ہے یا نہیں ؟‘‘ شعبان ۱۳۲۳ھ کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوا۔
مدرسہ محمدیہ:
مولانا نے ابتداءً ’’مدرسہ رحمانیہ‘‘ دانا پور میں تدریس کی ذمے داریاں نبھائیں ، لیکن جلد ہی بعض علمائے کرام کے مشورے سے اپنے جوار میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ چنانچہ ۵ رمضان المبارک ۱۳۲۱ھ/ ۲۵ دسمبر ۱۹۰۳ء کو ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا، لیکن اپنی دائمی علالت اور ضعفِ قلب جس کی وجہ سے اکثر گھنٹوں غشی طاری رہتی تھی، مدرسے کا نظم ونسق برقرار نہیں رہ سکا، لیکن اپنی قوتِ ایمانی اور ذوقِ اصلاح کی خاطر دوبارہ اپنی ہمتیں مجتمع کیں اور شوال ۱۳۲۲ھ کو علمائے کرام کو جلسے کے لیے مدعو کیا، تاکہ مدرسے کا اجرائے ثانی ہو سکے۔ مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری، علامہ عبد العزیز رحیم آبادی، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبد الحکیم صادق پوری، مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا عبد السلام مبارک پوری صاحبانِ عالی قدر جلسے میں شریک ہوئے۔ مجلسِ وعظ و ارشاد بپا ہوئی، مگر خود مولانا ہی کا جامِ حیات لبریز ہو چکا تھا، اس لیے چھلک پڑا۔ دورانِ جلسہ ہی مرضِ طاعون میں مبتلا ہوئے اور راہیِ ملکِ عدم ہو گئے۔
علامہ شمس الحق کی توجہ خاص:
جناب حبیب الرحمن کٹونوی لکھتے ہیں :
’’مولانا شمس الحق محدث ڈیانواں (جو تحریص خدمت علمِ دین میں غایت مستعد تھے) کی نظر آپ پر لگی ہوئی تھی۔ محدث آپ کے وسعتِ نظر اور مبلغِ نظر کا اندازہ آپ کی تصانیف سے کرنا چاہتے تھے، تاکہ ترویجِ علومِ دین کی جانب کامل اطمینان و تقویت حاصل ہو سکے، مگر اس آرزو کے پورے ہوتے ہی بادِ سموم نے یکے بعد دیگرے نخلِ آرزو کا خاتمہ کر دیا۔ إنا للّٰه ‘‘[1]
ازدواج و اولاد:
مولانا نے تقریباً ۱۹ برس کی عمر میں انتہائی سادگی کے ساتھ مولوی محمد سعید بن شیخ خیرات علی (موضع بانک، ضلع پٹنہ) کی بڑی صاحبزادی سے عقدِ مسنون کیا، جن سے چند بچے بھی ہوئے، تاہم
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ نومبر ۱۹۲۲ء