کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 334
حسین بن محسن یمانی سے بھی بلوغ المرام، مسلسل بالاوّلیۃ اور اطرافِ کتبِ ستہ کی اجازت حاصل کی تھی۔ عزم خدمتِ دین: اللہ رب العزت نے مولانا کو ذوقِ سلیم اور فطرتِ مستقیم سے بہرہ ور فرمایا تھا۔ اپنے خاندان کے پہلے موحد و متبعِ سنت تھے۔ اس لیے اپنے خاندان اور اطراف و اکناف کی اصلاح کے لیے مستعد ہوئے۔ تبلیغ و ارشاد کا فریضہ ادا کیا، مدرسہ قائم کیا، کتابیں لکھیں ، یعنی خدمتِ دین کے لیے ہر راہ میں قدم زن ہوئے، مگر حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے اخلاقِ حسنہ: مولانا کے برادرِ اصغر حبیب الرحمن کٹونوی لکھتے ہیں : ’’بعد فراغ تحصیلِ درسیات بغرضِ اکتسابِ رزقِ حلال محلہ چوہٹہ بانکی پور میں آپ نے ایک دکان پرچون (منیاری) کی کھولی تھی۔ لیکن بوجہ ابتدائی مشکلات اور زہد و اتقا کے ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے تمام زندگی تلاوت قرآن اور مطالعہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزاری۔ سفر میں بھی قرآن مجید اور ایک کتاب حدیث کی آپ کے ساتھ رہتی۔ کثرتِ مطالعہ اور قوتِ حافظہ کے باعث اکثر مقامات کی عبارتیں آپ کو یاد تھیں ۔ اصلاح اور خیر خواہی مسلمین کے ذوق نے آپ کو تبلیغ، تدریس، تصنیف اور تحقیقِ مسائل کے لیے بھی مستعد اور متوجہ کیا۔ اس کم عمری اور نقصِ صحت کے باوجود آپ نے مختلف تالیفات کیں ۔‘‘[1] مزید لکھتے ہیں : ’’مہذب، متین، کم سخن، حلیم اور منکسر تھے۔ اظہارِ حق اور بدعات و رسومات کی بیخ کنی میں اہلِ قرابت یا اہلِ ثروت کے رنج اور نرغہ کی پروا نہ کرتے۔‘‘[2]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ نومبر ۱۹۲۲ء [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ نومبر ۱۹۲۲ء