کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 333
صوبہ بہار اور خصوصاً پٹنہ اس نور سے منور ہونے میں طبقہ عالیہ میں ہے۔جہاں سیّد احمد صاحب بریلوی کا خود ورود ہوا تھا اور جناب کے مستعد خلیفہ مولانا ولایت علی کی جہد و سعی نے تو صوبہ بہار اور بنگال کے چپہ چپہ کو اس سے آشنا کر دیا تھا۔ شکر اللّٰه سعیہ‘‘[1]
ابتدائی حالات:
موجودہ ضلع نالندہ کا محلہ کٹونہ مولانا ابو محمد عبد البر کا آبائی مسکن تھا۔ ان کے والد کا نام شیخ سعدی تھا۔ مولانا اپنے والد کے تیسرے فرزند تھے۔ ابتدا میں ان کا نام ظہیر الدین تھا اور اسی نام سے معروف بھی تھے، لیکن فراغت کے بعد اپنا نام عبد البر اختیار کیا۔۵ شعبان ۱۲۹۵ھ/ ۱۵ اگست ۱۸۷۸ء کو بوقتِ شب بروز جمعرات پیدا ہوئے۔ چار پانچ برس کے تھے کہ والدین کے ظلِ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ بڑی بہن اور بڑے بھائی محمد اسحاق صاحب انسپکٹر پولیس نے کفالت کی۔ بچپن ہی سے لہو و لعب سے دور اور ذوقِ علم سے سرشار تھے۔
تحصیلِ علم:
چھے برس کے ہوئے تو مولانا کے عم زاد بھائی مولانا شمس الحق کٹونوی نے ان کی تعلیم کا آغاز کیا۔ مگر اپنی خرابیِ صحت اور مسلسل علالت کے باعث اسباقِ درس میں تسلسل رکھنے سے قاصر رہے، تاہم بفضلہ تعالیٰ اپنی غیر معمولی ذہانت اور قوتِ حافظہ کی بدولت جلد ہی اس کمی کی تلافی کر لیا کرتے تھے۔ ’’کافیہ‘‘ عظیم آباد کے مشہور مدرس مولانا محمد کمال علی پوری سے پڑھ کر ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں داخل ہوئے۔ جہاں استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری سے اکتسابِ علم کیا۔ حافظ صاحب بھی اس نو وارد طالبِ علم کی ذہانت و فطانت کے بڑے مداح تھے۔ اکثر استخراجِ مسائل اور افتاء کی ذمے داری بھی انہی کے سپرد کرتے تھے۔ حافظ صاحب غازی پوری سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کے بعد مولانا حدیث کی اعلیٰ سند کے لیے شیخ الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں دہلی تشریف لے گئے، ان سے حدیث کی تحصیل کی اور سند و اجازئہ حدیث حاصل کیا۔ اپنی وفات سے چند برس پیشتر تقریباً ۱۳۲۰ھ میں صادق پور پٹنہ میں مولانا محمد یعقوب صادق پوری کی رہایش گاہ پر شیخ
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ نومبر ۱۹۲۲ء