کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 331
بچنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ کتاب ایک مقدمہ، ۱۶ فصلوں اور خاتمہ پر مشتمل ہے، تعدادِ صفحات: ۱۴۲۔ اپنے موضوع سے متعلق آیات و احادیث کا اچھا ذخیرہ اس میں جمع ہو گیا ہے۔
مولانا کے پوتے سیّد مجتبیٰ کمال اپنے دادا سے متعلق لکھتے ہیں :
’’سیّد بشارت کریم صاحب ایک مستند عالم دین اور لائق استاد تھے، جنھوں نے اپنی ساری زندگی دینیات، اردو، عربی، فارسی پڑھانے میں صرف کردی۔‘‘ [1]
مولانا بشارت کریم کی وفات ۱۳۲۱ھ/ ۱۹۰۳ء میں ہوئی۔ اللہ نے انھیں کئی صاحبزادے عطا کیے، مگر ایک کے سوا تمام صاحبزادے صغر سنی میں وفات پاگئے۔ اپنی وفات کے وقت انھوں نے اکلوتے صاحبزادے اور چار صاحبزادیوں کو اپنی یادگار چھوڑا۔[2]
مولانا بشارت کریم کے اکلوتے صاحبزادے مولانا عبد الباری ندوی دیسنوی ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۲ برس کی عمر میں داغِ یتیمی سے آشنا ہوئے۔ والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہونے کے بعد سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمت نہیں ہاری۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ لکھنؤ سے تعلیم کی تکمیل کے بعد ’’ہیوٹ انجینئرنگ اسکول‘‘ لکھنؤ میں داخل ہوئے اور وہاں سے سب انجینئر بن کر نکلے۔ مولانا عبد الباری کا عقدِ نکاح مولانا ابو حبیب دیسنوی کی صاحبزادی سے ہوا جو علامہ سید سلیمان ندوی کی بھتیجی تھیں ۔ مولانا عبد الباری کا انتقال ۲۰ جون ۱۹۸۰ء کو کراچی میں ہوا۔[3]
[1] دیسنوی (ص: ۸۲)
[2] مولانا سیّد بشارت کریم دیسنوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: نسب نامہ سادات و ملوک دیسنہ (ص: ۵۱)، دیسنوی (ص: ۸۲)
[3] مولانا عبد الباری ندوی دیسنوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: دیسنوی (ص: ۸۲، ۸۳، ۸۶)