کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 330
مولانا سیّد بشارت کریم دیسنوی (وفات: ۱۳۲۱ھ/ ۱۹۰۳ء) مولانا سیّد بشارت کریم بن میر ہدایت حسین عرف میر سوپن بن میر جھکوڑی ساکن موضع استھانواں اپنے عہد کے جید اہلِ حدیث عالم، مدرس و مبلغ تھے۔ انھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا رشتہ استوار کیا۔ ان کا آبائی تعلق استھانواں سے تھا، جو موجودہ ضلع نالندہ کا ایک معروف مقام ہے۔ مولانا بشارت کریم نے حفظِ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرنے کے بعد مختلف علماء سے کتبِ درسیہ کی تحصیل کی۔ کتبِ حدیث دہلی میں شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے پڑھیں ۔ مولانا بشارت کریم کا نکاح موضع دیسنہ کے حکیم جنت حسین کی صاحبزادی سے ہوا۔ بعد از ازدواج مولانا نے دیسنہ میں مستقل اقامت اختیار کی اور دیسنوی کی صفتِ نسبتی سے معروف ہوئے۔ دیسنہ، استھانواں سے قریب ہی ایک بستی ہے اور ان بستیوں کے مابین ازدواجی رشتے برسہا برس سے ہوتے آ رہے تھے۔ مولانا بشارت کریم نے تدریسی خدمات بھی انجام دیں ، ان کے تلامذہ میں شمس العلماء مولانا عبد الوہاب سربہدوی بہاری، حافظ ملک شرف الدین استھانوی، مولانا سیّد نجم الہدیٰ دیسنوی کا ذکر ملتا ہے۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی نے بھی اپنی ابتدائی طالب علمی کے زمانے میں مولانا بشارت کریم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔[1] مولانا کی ایک اردو تصنیف ’’اللتیا و التی‘‘ ہماری نظر سے گزری ہے۔ یہ کتاب مطبع سعید المطابع بنارسی سے ۱۳۰۴ھ میں طبع ہوئی۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے عشق کی تباہ کاریوں اور زنا کی مذمت بیان کی ہے۔ اس کے بعدفتنۂ زن سے متعلق مختلف اخلاقی برائیوں کا بیان ہے اور ان سے
[1] ماہنامہ ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ) نومبر ۱۹۵۹ء