کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 33
مزید فرماتے ہیں :
’’اگر کسی مسئلہ میں قیامت کے دن امام مالک کے قول کے درست ہونے پر حکم ہوا اور امام اعظم نے جو فرمایا وہ صحیح نہ ہوا تو (مقلد) اپنی ذمہ داری سے مطلقاً عہدہ برا نہ ہو گا۔ پس حقیقتاً ذمہ داری سے اس وقت عہدہ برا ہو گا کہ کل قیامت کے دن شرع کے رو سے اس پر کوئی دلیل قائم نہ ہو اور عبادات میں یہ اسی وقت ہو گا کہ وہ (مقلد) اس طرح عامل ہو کہ جملہ اقوال پر اس کا عمل ہو جائے۔‘‘[1]
مذکورہ بالا اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ تقلیدِ شخصی کے اس طرح قائل ہی نہیں جیسا کہ عام مقلدین ہیں ، بلکہ اس کے برعکس ان کے اندازِ فکر میں خاصا توسع ہے جو مجتہدانہ اسلوبِ منہج کا عکاس ہے۔[2]
شیخ منیری کے سوانح نگار سیّد ضمیر الدین احمد عظیم آبادی نے گو ’’سیرت الشرف‘‘ میں انھیں حنفی باور کرانے کی کوشش کی ہے، تاہم ان کے مسلک کے ضمن میں یہ لکھنے پر بھی مجبور ہوئے:
’’حق یہ ہے کہ مخدوم کا مذہب فقہائے اہلِ حدیث کا مذہب تھا جو تمام صوفیہ کرام میں اس وقت شائع تھا۔‘‘[3]
علمائے صادق پور:
بہار میں اہلِ حدیث فکر و منہج کو بطور تحریک وسیع تر بنیادوں پر پھیلانے کا کام سب سے پہلے علمائے صادق پور نے کیا۔ خانوادئہ صادق پور کے گلِ سر سبد مولانا ولایت علی صادق پوری سے متعلق مولانا عبد الرحیم صادق پوری لکھتے ہیں :
’’آپ کی تحصیلِ قرآن و احادیث اور وعظ و نصائح سے ملک ہندوستان میں عمل بالحدیث
[1] خوانِ پُر نعمت، مجلس: ۳۵ (ص: ۱۳۲)
[2] ’’خوانِ پُر نعمت‘‘ کے انہی اقتباسات کی روشنی میں ابو الحسن بسملؔ جمال پوری کا ایک مضمون ’’مخدوم الملک مولانا الشیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری اور تقلیدِ شخصی و فاتحہ خلف الامام‘‘ ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کی ۱۰ فروری ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوا۔
[3] سیرت الشرف (ص: ۱۶۴)