کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 329
’’الشیخ العالم الفقیہ عبد اللّٰه بن فرزند علی الصدیقي البازید پوري، أحد عباد اللّٰه الصالحین‘‘[1] مولوی جواد حسین گیاوی لکھتے ہیں : ’’پدر مولانا عبد اللہ سررشتہ دار پٹنہ بود و مولانا عالم بے مثال و قاری قرآن، و در فارسی صہبائی و قاآنی و خاقانی وقت بود۔ مرزا سنجر ایرانی در محاورات ازو سبق گرفت از عرب و عجم و مصرعہ تحصیل کمال نمودہ چند سال در طہران مدرس شہر مددگان ماندہ۔‘‘[2] تلامذہ: مولانا کی تدریسی خدمات کے نتیجے میں ایک کثیر تعداد مستفید ہوئی۔ فنِ قراء ت میں مولانا کے تلامذہ کی تعداد خاصی ہے۔ کبار تلامذہ میں مولانا عبد الوہاب سربہدوی بہاری، مولانا شاہ حسین الدین احمد گیاوی، وغیرہم کا ذکر ملتا ہے۔ وفات: مولانا حافظ عبد اللہ بازید پوری کا مرتبہ زہد و ورع اور تقویٰ میں بہت بلند تھا۔ فقہ، حدیث، تفسیر اور فنِ قراء ت کے ماہر تھے۔ اللہ نے مولانا کو طویل عمر عطا فرمائی تھی۔ اس جلیل القدر عالمِ دین نے جمادی الاولیٰ ۱۳۱۸ھ میں وفات پائی۔[3] 
[1] نزہۃ الخواطر (۱۲۹۶) [2] تاریخِ حسن (ص: ۱۰۰) ’’مولانا عبداﷲ کے والدِ محترم پٹنہ کے کارپرداز تھے، جبکہ مولانا بے مثال عالم، قاریِ قرآن اور فارسی میں وقت کے صہبانی، قاآنی اور خاقانی تھے۔ مرزا سنجر ایرانی نے محاورات میں ان سے سبق لیا۔ انھوں نے عرب و عجم سے تحصیلِ کمال کیا۔ وہ چند سال طہران میں شہر مددگان میں مدرس بھی رہے۔‘‘ [3] مولانا حافظ عبد اللہ بازید پوری کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۷۰)، نزہۃ الخواطر (ص: ۱۲۹۶)، تاریخِ حسن (ص: ۱۰۰)، نثر الجواھر و الدرر (ص: ۶۰۲)، نزہۃ الخواطر کا علمی و تحقیقی جائزہ (ص: ۴۴)