کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 327
کاندھلوی اور مولانا مفتی صدر الدین دہلوی سے اخذِ علم کیا۔
شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی سے اکتسابِ علم:
مولانا بازید پوری فرماتے ہیں :
’’میں مفتی صدر الدین خاں صدر الصدور دہلی سے کتبِ درسیہ پڑھتا تھا اور اکثر میاں صاحب کے درس کے وقت وہاں بھی جا کر بیٹھتا تھا۔ طلبا کا ہجوم رہتا اور آپ نہایت تحقیق کے ساتھ درس دیتے۔ حق بات یہ ہے کہ فقہ، تفسیر، حدیث اور فلسفہ کے آپ عالمِ متبحر تھے۔ پڑھانے میں جب تقریر کرتے تو ایک بحرِ مواج معلوم ہوتے تھے۔‘‘[1]
اسی اعترافِ قلبی نے مولانا کو حضرت میاں صاحب سے باقاعدہ کسبِ علم پر راغب کیا۔ فقہ و حدیث کی بھرپور تحصیل میاں صاحب سے کی۔ یہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء سے قبل کا زمانہ تھا۔
حجازِ مقدس کا سفر:
پھر حجازِ مقدس کی راہ لی۔ وہاں فریضۂ حج کی سعادت حاصل کی اور زیارتِ حرمین شریفین کے بعد شیخ احمد بن اسعد الدھان المکی[2] سے علمِ حدیث اور فنِ تجوید کی تحصیل کی۔ مکہ مکرمہ میں دو برس سے زائد عرصہ رہ کر تین بار حج کیا اور واپس اپنے آبائی وطن لوٹ آئے۔
مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد:
مولاناسید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
’’صوبہ بہار کو ہندوستان کے اکثر صوبوں میں ایک خاص امتیاز حاصل تھا، جس کے کچھ مٹے مٹے سے نشان اب تک موجود ہیں ، اور وہ یہ کہ یہاں علم اور دولت تواَم رہے ہیں ، یعنی یہاں سے بہت سے ایسے خاندان تھے جن کے افراد میں فضل و کمال اور جاہ و مال کا
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۷۰)
[2] صاحبِ ’’نزہۃ الخواطر‘‘ نے ’’السید احمد بن عفیف بن اسعد الدھان الحضرمی‘‘ لکھا ہے جو درست نہیں ۔ شیخ احمد بن اسعد الدھان المکی درست ہے، جن کے اجداد پٹن (گجرات) سے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ جا بسے تھے۔ حضرموت (یمن) سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ (ملاحظہ ہو: نزہۃ الخواطر کا علمی و تحقیقی جائزہ، ص۴۴)