کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 324
تلاش کیا ہے۔ مشرکانہ عقائد و رسوم جن میں مسلمانوں کی پچھلی نسلیں ، غیر اقوام کی صحبت اور حکومت کی غفلت کی بدولت مبتلا ہو گئی تھی۔ مولانا نے عورتوں اور جاہل مردوں کو، کن خاموش راہوں سے بُت خانوں کے اس قافلہ کو حرم تک لے جانے کی کوشش فرمائی ہے۔ آب دیدہ ہو کر اماں مرحومہ یاد کرتی تھیں کہ موٹیا کا لانبا کُرتا اور موٹیا کا پائجامہ، موٹیا کی ٹوپی میں اسلام کا یہ مخلص خادم، گھر گھر مسلمان خواتین کو نرمی اور دل دہی کے ساتھ بدعات اور مشرکانہ رسوم کے چھوڑنے کی ہدایت کرتا تھا۔ ان کی تدبیریں عجیب تھیں ۔ خدا نے ان کی باتوں میں تاثیر بخشی تھی۔‘‘[1] مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری لکھتے ہیں : ’’آپ (مولانا وحید الحق) کو بھی میاں صاحب (سیّد نذیر حسین دہلوی)سے شرفِ تلمذ حاصل تھا اور خالصاً لوجہ اللہ خدمتِ مدرسہ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا اور سچ یہ ہے کہ اہتمام کا حق ادا کر دیا۔ اب یہ تدین و تمذہب کہاں نصیب؟ فاغفرلہ و ارحمہ‘‘[2] مولانا کے ایک تلمیذِ رشید مولانا عبد الغنی وارثی جو نہ صرف مولانا کے ہم قریہ، ہم وطن بلکہ خاندانی قرابت دار بھی تھے، اپنے اس عالی قدر استاذ سے متعلق فرماتے ہیں : ’’انھوں نے (مولوی وحید الحق مرحوم) جس محنت و شفقت کے ساتھ اور جس جانفشانی اور دل سوزی کے ساتھ میرا پڑھانا اپنے ذمہ لیا، اس کے بیان کے لیے ایک دفتر چاہیے۔‘‘[3] مولانا وحید الحق مسلک و نظریات کے اعتبار سے حنفی تھے، مگر وسیع المشرب تھے۔ حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کے تلمیذ تھے اور بہار کے اہلِ حدیث علماء سے ان کے خوشگوار روابط تھے۔ مولانا عبد الصمد اوگانوی سے قرابت داری تھی۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی سے بھی تعلقِ خاطر تھا۔ ایک بار اپنے مدرسے کے سالانہ جلسے کے موقع پر انھیں بطور ممتحن و مہمان خصوصی دعوت دی تھی جو انھوں نے بطیب خاطر قبول کی۔
[1] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ’’بہار نمبر‘‘ ۱۹۴۰ء [2] الانتقاد، شمارئہ خاص ’’امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی‘‘ (ص: ۸۶) [3] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ’’بہار نمبر‘‘ ۱۹۴۰ء