کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 322
’’مولانا وحید الحق مرحوم، جیسا کہ اس زمانہ کا عام دستور تھا، تمام علومِ متداولہ میں کافی دستگاہ رکھتے تھے، لیکن عموماً اس عہد کے علماء میں جس فن کا عام چرچا نہ تھا وہ ’’عربی علم ادب‘‘ تھا۔ ..... ندوی تحریک سے پہلے ہی جن بزرگوں نے ادھر (عربی علم ادب) توجہ کی، ان میں ایک مولوی وحید الحق صاحب استھانوی مرحوم بھی تھے۔ مولانا عبدالغنی صاحب مرحوم (وارثی) ارقام فرماتے ہیں : ’’ادب عربی جس میں ان (مولوی وحید الحق) کو بہت اچھی مداخلت تھی۔‘‘[1] قلمی خدمات: مولانا کبار اصحابِ علم میں سے ایک تھے۔ درس و تدریس ان کا اہم ترین شغل تھا، لیکن قلم و قرطاس سے بھی رشتہ استوار تھا۔ ہمیں مولانا کی چند کتابوں کا سراغ مل سکا جن کا ذکر حسبِ ذیل ہے: 1 ’’مغنی الصبیان‘‘: یہ عربی زبان و ادب سے متعلق مختصر سی کتاب ہے، جس نے اپنے عہد میں طلابِ علم پر گہرا اثر چھوڑا۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی نے اپنی طالب علمانہ سرگذشت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’میرے وطن دیسنہ کے قریب ایک دوسرا مشہور قصبہ استھانواں ہے، مولانا وحید الحق صاحب (استاد و خسر مولانا محمد سجاد صاحب نائب امیرِ شریعتِ بہار) کی ایک چھوٹی سی کتاب ’’مغنی الصبیان‘‘ ہاتھ آئی، اس میں مختلف ضرورتوں کے عر بی الفاظ اور ان کے معنی لکھے ہیں ۔ یہ مجھے بڑی انمول چیز ہاتھ آئی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو نقل کیا اور یاد کیا۔ یہ ادبِ عر بی کی طرف میری توجہ کا پہلا قدم تھا۔ اس کا نتیجہ تھا جب مجھے ادب عربی پر سب سے پہلے لکھنے کا خیال آیا تو اسی طریق پر دروس الادب کی بنیاد ڈالی۔‘‘[2]
[1] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ’’بہار نمبر‘‘ ۱۹۴۰ء [2] مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں (ص: ۹، ۱۰)