کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 321
دم تک اس کو نہ بھولے، اور اپنے انتقال سے پہلے چندہ کی پوری رقم بیباق کر دی۔‘‘[1] یہ مدرسہ تاریخی اہمیت کا حامل اور ہندوستان کے قدیم مدارس میں سے ایک ہے۔ بہار میں دیوبندی فکر کا یہ اوّلین مدرسہ ہے۔ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری لکھتے ہیں : ’’اس مدرسہ کا ہندوستان کی قدیم درسگاہوں میں شمار ہے۔ اکناف بہار شریف کے باشندہ ایک عالم باصفا مولانا وحید الحق استھانوی ( استاد و خسر جناب مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب بہاری) نے ۱۳۰۱ھ میں اس مدرسہ کو قائم کیا اور کفر زار ہند میں تعلیماتِ اسلامی کو پھیلانے میں کارِ ہائے نمایاں انجام دیا۔ یہ مدرسہ اپنے وقت میں صوبہ کے دیوبندی علماء کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس کے پاس ایک کتب خانہ ہے جس میں ہر فن کی قابلِ قدر کتابوں کا اچھا ذخیرہ ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی علم دین کی طرف سے بے رغبتی اور منتظمینِ مدرسہ کی بے کیفی سے اب یہ مدرسہ اپنے آثارِ قدیمہ کا مدفن بنا ہوا ہے اور اس قحط و گرانی کے دور میں کتابیں کیڑے کو غذا بہم پہنچارہی ہیں ۔‘‘[2] سر دست یہ مدرسہ بی بی صغریٰ (وقف) ٹرسٹ کے زیر انتظام اپنی دینی خدمات انجام دے رہا ہے۔ تلامذہ: طلابِ علم کی ایک کثیر تعداد مولانا کے فیضِ علم سے مستفید ہوئی، تاہم جن کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہو سکی، وہ حسبِ ذیل ہیں : مولانا مبارک کریم، مولانا ابو المحاسن سجاد بہاری، مولانا احمد سجاد بہاری، مولانا سیّد رحیم الدین استھانوی مدیر ’’الپنچ‘‘ بانکی پور، مولانا عبد الغنی وارثی، مولانا حکیم محمد یٰسین آروی وغیرہم۔ عربی زبان و ادب سے دل چسپی: مولانا وحید الحق کو عربی زبان و ادب سے خاص دل چسپی تھی۔ عربی زبان کی درسی کتابیں بھی مولانا نے تالیف فرمائیں ۔ مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں :
[1] حیاتِ رضا (ص: ۳۶) [2] الانتقاد، شمارئہ خاص ’’امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی‘‘ (ص: ۸۶)