کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 320
حفظِ قرآن کریم کے بعد دینی علوم کی تحصیل ابتداءً اپنے اطراف کے علماء سے کی۔ مولانا لطف العلی بہاری سے بعض کتبِ درسیہ پڑھیں ۔اس کے بعد بہار سے باہر نکلے۔ جون پور میں مولانا ہدایت اللہ خاں جون پوری سے فنِ معقولات کی تحصیل کی اور دہلی میں حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے اکتساب علم کیا۔ طب کی بھی تحصیل کی اور جید طبیب کی حیثیت سے معروف ہوئے۔
تدریس:
مولانا کثیر الدرس مدرس تھے۔ پوری زندگی مصروفِ درس و تدریس رہے۔ ابتداءً آرہ اور نالندہ کے مختلف مقامات پر فرائضِ تدریس انجام دیے۔ آرہ میں ’’فخر المدارس‘‘ کے نام سے ایک دینی درس گاہ اپنے رفیقِ خاص مولانا فدا حسین محی الدین نگری کے اشتراک سے قائم کی۔ تاہم یہ مدرسہ زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔ مولانا کا مختصر سا ذکر کرتے ہوئے ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ کے مولف مولانا ادریس نگرامی نے لکھا ہے:
’’مولوی وحید الحق صاحب۔ آپ کو شغلِ تدریس پسند ہے۔ مدرسہ اسلامیہ بہار ضلع پٹنہ میں مدرس ہیں ۔ سلمہ اللہ تعالی۔‘‘[1]
مدرسہ اسلامیہ، بہار شریف:
کے لیے ایک درس گاہ بنام ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ قائم کی، اور پوری زندگی اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کر دی۔ مدرسے کے معاونین اطراف کے اہلِ خیر اور دریا دل افراد ہوا کرتے تھے۔
معاونینِ مدرسہ میں ایک اہم نام قاضی رضا حسین کا تھا، جنھیں اس دور میں ’’بہار کا سر سیّد‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’حیاتِ رضا‘‘ کے مؤلف مولوی عبد الغنی استھانوی لکھتے ہیں :
’’ایک دیندار اور مخلص و پرہیز گار عالم مولوی سیّد وحید الحق صاحب استھانوی بہاری نے شدید و مسلسل محنت اور پیہم کوشش کے بعد قرآن مجید، فارسی اور درسِ نظامی کے مطابق عربی تعلیم کے لیے بہار میں ایک مدرسہ قائم کیا، قاضی صاحب نے اپنے آخر زمانہ میں اس مدرسہ کے لیے بھی ماہانہ چندہ مقرر کیا، اور اگرچہ وہ کوئی بڑی رقم نہ تھی تاہم وہ مرتے
[1] تذکرہ علمائے حال (ص: ۹۶)