کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 316
دریا دریا اگر بکامت ریزند کم باید کرد و خشک لب باید بود[1]
خلوت در انجمن: یعنی لوگوں کے ساتھ بیٹھے تو بھی ویسے ہی یادِ الٰہی میں لگے رہنا۔
اے دل خدا کی یاد کو مت بھول زینہار اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے
ملکہ یاد داشت: یعنی ذاتِ الٰہی کا مزہ بدون دھیان کے کسی لفظ سے۔
یہ وصیت ہے، ہر چند مختصر و قلیل الفاظ ہے، لیکن جامع معانی و حاوی مقاصدِ رحمانی ہے۔ جمیع اولیاء اللہ کہ ہم جس کے دامن گیر ہیں ، تمام عمر ریاضات و مجاہدات فقط واسطے تحصیل انھیں حالات و مقامات کے کرتے تھے۔ آخر الامر مقبول بارگاہِ کبریا و ملائکہ با صفا و مومنین با حیا کے ہوئے۔
دادیم تر از مقصود نشان گر ما نرسیدم تو خواہی برسی[2]
حلقۂ فیض و افادہ:
شاہ ممتاز الحق کا حلقۂ فیض و افادہ بلاشبہہ بہت وسیع تھا۔ ان کے معاصرین کی یہی گواہی ہے۔ تاہم ان کی مقبولیت خواص سے زیادہ عوام میں تھی۔ لوگ ان کے تقویٰ اور اخلاص سے متاثر ہوتے اور اپنی اصلاح کرتے۔ خواص میں ہمیں مولانا عبد الصمد اوگانوی ثم دانا پوری، مولانا مرزا داود بیگ اور حکیم وحید الحق مونگیری کا ذکر ملتا ہے جو شاہ صاحب کے حلقۂ ارادت سے منسلک تھے۔
مولوی جواد حسین گیاوی لکھتے ہیں :
’’مولانا ممتاز الحق دردی بہدور در حیدر آباد دکن لکھوکھا مریدان و تلمیذ داشت۔‘‘[3]
ازدواج و اولاد:
مولانا کی پہلی شادی حیدر آباد دکن میں ہوئی، جس سے ایک صاحبزادے مولوی عبداللہ
[1] ’’راہِ خدا میں سراسر ادب ہونا چاہیے اور جب تک جان میں جان ہے ادب کی طلب ہونی چاہیے۔ اگر دریا کو بھی تیرے حلق میں اتار دیں ، تو دریا کا پانی کم ہو جائے گا مگر تیرے ہونٹ پھر بھی خشک رہیں گے۔‘‘
[2] رفع الاشتباہ عن صفات أولیاء اللّٰه (ص: ۲۳۰۔ ۲۳۲)
’’میں نے تمھیں مطلوب خزانے کی علامت بتا دی ہے، اگر میں نہ پہنچا تو شاید تم پہنچ جاؤ۔‘‘
[3] تاریخِ حسن (ص: ۱۲۶)