کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 314
وصیت نامہ: مولانا ممتاز الحق کی واحد تحریر جو ہمیں دستیاب ہو سکی، ان کا وصیت نامہ ہے جو انھوں نے اپنے تلمیذ و خلیفہ مولانا عبد الصمد اوگانوی ثم دانا پوری کو دیا۔ مولانا عبد الصمد نے اس وصیت نامے اور مولانا کے شجرۂ بیعت کو اپنی کتاب ’’رفع الاشتباہ عن صفات أولیاء اللّٰه ‘‘ میں شامل کیا ہے۔ وصیت کیا ہے؟ تقویٰ و اخلاص میں سرشار بزرگوں کے طریقۂ صلاح و فلاح کی یادگار ہے۔ شرک و بدعت سے مجتنب رہنے کی تلقین ہے اور اتباعِ سنت کی تاکید ہے۔ آج کل کچھ کوتاہ فہم افراد کی طرف سے اہلِ حدیث کو صوفی بنانے اور تصوف سے منسلک کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ وصیت نامہ من و عن نقل کیا جائے، تاکہ اہلِ حدیث کے ’’منازلِ سلوک و طریقت‘‘ سے آگاہی ہو۔ کتاب و سنت سے انسلاک ہمارا سلوک اور اس کی اتباع و پیروی ہی ہماری طریقت ہے۔ مولانا ممتاز الحق فرماتے ہیں : ’’وصیت فقیر سراپا تقصیر المفتقر الی اللہ المعروف بہ ممتاز علی شاہ (اوصلہ اللہ الیٰ غایۃ ما یحب و یرضیٰ) بجمیع احباب و دوستاں اولی الالباب یہی ہے کہ کتابِ الٰہی کو قرائۃً و عملاً و اعتباراً ترک نہ کریں اور سنتِ نبویہ علیٰ صاحبہا الف الف صلاۃ و تحیۃ کو تمام عبادات و عادات میں عروئہ وثقیٰ جان کر باہتمام ساتھ اس کے چنگل ماریں اور اپنی زبان کو ساتھ مصاحبتِ دل کے یادِ اللہ عز و جل میں تر رکھیں اور ساتھ دل و جان کے ما سویٰ اللہ سے منقطع اور جدا ہو کر طرف اللہ کے متوجہ اور رجوع رہیں ۔ اور تحصیل رضا جوئی مولیٰ اور حصولِ مرتبہ اخلاص و احسان و محبت رحمن میں کما ینبغی کوشش کریں ۔ اور صحبت و مجالست سے بے دینوں ، فساق و فجار اہلِ کبر و ہوا کے کہ صحبت ان کی زہرِ قاتل و سمِ مہلک ہے، مجتنب رہیں اور منہیات تمام، بلکہ کامل کثرتِ کلام سے کہ سبب قساوۃ و غفلت و باعثِ آزردگی روحِ مبارک حضرت رسالت کا ہے، دور رہیں ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے بندوں کا عمل لکھنے والے فرشتے امتِ محمدی کے عملوں کو پیر و جمعہ کے روز پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پہنچاتے ہیں ۔[1] دیکھو اے امتیو! کہیں ایسا کام نہ کرو کہ حضرت کی روحِ مبارک
[1] ایسی تمام روایات جن میں اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے اعمال پیش کیے جانے کا ذکر ہے اسناداً ضعیف ہیں ۔