کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 312
حضور میں بغرضِ بیعت و ارشاد حاضر ہوئے تو عبد اللہ صاحب نے فرمایا کہ تم دہلی جا کر وہاں رہو اور شرفِ صحبتِ شیخ سے مستفید ہو کر ان سے اجازت لے کر یہاں آؤ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ دہلی آئے اور یہاں بہت دنوں تک رہے، پھر جب میاں صاحب کے خط کے ساتھ امرتسر پہنچے، تب عبد اللہ صاحب نے ان سے بیعت لی اور مسترشدین میں اپنے داخل کیا۔‘‘[1]
عارف باللہ مولانا عبد اللہ غزنوی سے استفادہ:
حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے ایک عرصہ تک مستفید ہونے کے بعد مولانا امرتسر پہنچے، یہاں مولانا عبد اللہ غزنوی سے اخذِ علم کیا اور ان سے ظاہر و باطن کے اصلاح و تزکیہ کے اسباق حاصل کیے۔
مولانا اپنے وصیت نامے مع شجرۂ بیعت میں لکھتے ہیں :
’’اس حقیر کو بیعت قائم رہنے کی کتاب اللہ اور اتباع سنت و توجہ الی اللہ و ترک ماسویٰ و کمال سعی برضائے مولیٰ و تحصیل تقویٰ پر اوپر دست مبارک امام الوقت عارف باللہ حضرت شیخ عبد اللہ غزنوی کے ہے۔‘‘[2]
مولانا عالم علی مراد آبادی سے اخذِ علم:
مولانا کے تیسرے استاد مولانا عالم علی محدث مراد آبادی تھے، جو شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے شاگردِ رشید تھے۔ ان کا ذکر خود مولانا نے اپنے شجرۂ بیعت میں کیا ہے۔[3]
حیدر آباد دکن کی سکونت:
مولانا ممتاز الحق نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ حیدر آباد دکن میں گزارا۔ وہیں اقامت اختیار کی، لیکن بہار سے تعلق برقرار رکھا۔ حیدر آباد دکن میں عوام الناس سے لے کر امرا و رؤسا تمام طبقات ہی
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۱۴۳)
[2] رفع الاشتباہ عن صفات اولیاء اللہ (ص: ۲۲۹)
[3] رفع الاشتباہ عن صفات اولیاء اللہ (ص: ۲۳۲)