کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 31
شیخ شرف الدین احمد منیری نے حدیث کی تعلیم و تدریس کے ذریعے ایک مستقل دبستانِ فکر کی بنیاد ڈال دی۔ کتبِ حدیث کی جمع و اشاعت اور اس کی تعلیم و تدریس کا ایک خاص ذوق پروان چڑھانے میں اس دبستان کا امتیازی حصہ ہے۔ پروفیسر معین الدین دردائی لکھتے ہیں :
’’آپ کی تصانیف کی سب سے بڑی خصوصیت جو ایک اور نظر آتی ہے وہ آپ کا تفسیر و حدیث کو اپنی تحریر میں ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا ہے۔ آپ نے حدیث و تفسیر کے بے شمار ر حوالے دیے ہیں ، بلکہ آپ کی تصانیف کا اصل مقصد ہی قرآنی احکام اور سنتِ نبویہ کی اشاعت معلوم ہوتا ہے۔‘‘[1]
مخدوم شرف الدین احمد کی خدمتِ حدیث کے نتیجے میں ان کے تلامذہ علمِ حدیث کی نشر و اشاعت کے لیے مستعد ہوئے، جنھوں نے اپنی زندگیاں حدیث کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کر دیں ۔ ان میں مولانا مظفر شمس بلخی، مخدوم منہاج الدین راستی گیلانی، مولانا نصیر الدین جون پوری، شیخ حسین نوشہ توحید اور پھر ان کے بعد شیخ احمد لنگر دریا بلخی اسی سلسلۂ سند سے منسلک تھے۔
شیخ شرف الدین کے عقائد و افکار اور فقہی و تاریخی نظریات بھی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں ۔ توحیدِ اسماء و صفات کے باب میں شیخ شرف الدین احمد کا مسلک سلف صالحین کے طریقے پر تھا، چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ذات اس کی موصوف ہے بہ صفاتِ کمالیہ، نقصان و زوال سے پاک ہے، جو اس کے لیے مناسب ہے، اسی طور پر ہے اور معرفتِ صفات سے مراد ہے کہ صفاتہ لیس کصفاتنا۔‘‘[2]
مزید فرماتے ہیں :
’’جس طرح اس کی ذات قدیم ہے صفات بھی قدیم ہیں اور کل صفات قائم بذاتِ خداوند ہے۔‘‘[3]
[1] تاریخ سلسلہ فردوسیہ (ص: ۲۳۹)
[2] معدن المعانی (ص: ۲۹)
[3] معدن المعانی (ص: ۲۹)