کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 309
5 مولانا حکیم برکات احمد بہاری ثم ٹونکی 6 مولانا محمد ابراہیم بن لطف العلی بہاری
7 مولاناحافظ محمد اسحاق رمضان پوری 8 مولوی محمد وحید ڈیانوی
9 حافظ علی اکبر ڈیانوی 10 حافظ علی اصغر ڈیانوی
11 حکیم ابرار احمد ٹونکی وغیرہم۔
علمِ حدیث سے رغبت:
مولانا ابتدائی عمر میں علومِ حکمت و معقولات میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن پھر کئی برس درس و تدریس کے بعد مولانا کی دلچسپی حدیث اور فقہ کی طرف ہوگئی۔ حدیث پڑھتے، پڑھاتے اور اسی پر عمل پیرا ہوتے۔
علم و فضل:
مولانا کی علم و فضیلت مسلمہ تھی۔ مولانا لطف العلی کے لائقِ فخر تلمیذ رشید علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے اپنی مایۂ ناز تصنیف ’’غایۃ المقصود‘‘ میں مولانا لطف العلی کا شمار سید نذیر حسین محدث دہلوی کے طبقۂ اول کے تلامذہ کرام میں کیا ہے۔[1]
صاحبِ نزہۃ الخواطرمولانا حکیم عبد الحی حسنی نے مولانا کے حالات تذکرۃ النبلاء کے حوالے سے لکھے ہیں ۔ تذکرۃ النبلاء علامہ شمس الحق ہی کی غیر مطبوع تصنیف ہے۔ مولانا حسنی لکھتے ہیں :
’’ولم یکن لہ نظیر في الحلم و الأناۃ و الصدق و صلاح الظاھر و الباطن، أخذ عنہ خلق کثیر من العلماء‘‘[2]
’’حلم، نرمی، سچائی اور ظاہر و باطن کی صفائی میں ان کی نظیر نہیں تھی۔ ان سے علما کی ایک کثیر تعداد نے استفادہ کیا۔‘‘
اولاد:
مولانا کے ایک صاحبزادے مولانا محمد ابراہیم کا ذکر ملتا ہے۔ مولانا محمد ابراہیم بھی اپنے والد کی طرح سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ الحیاۃ بعد المماۃ میں حضرت میاں نذیر حسین کے
[1] غایۃ المقصود (۱/۵۹)
[2] نزہۃ الخواطر (ص: ۱۰۷۶)