کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 304
سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے تعلقِ عقیدت:
مولانا محمد توحید غالی حنفی ہونے کے باوجود اپنے استاد میاں نذیر حسین دہلوی سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے علم و فضل کے معترف اور انھیں مجتہد مانتے تھے۔ تقلید کی تائید میں اپنی ایک کتاب ’’تحقیق السدید في بیان التقلید‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اگر کوئی جاہل حنفی یا وہابی کہے کہ مولانا سیّد نذیر حسین تو غیر مقلد تھے، جواب دوں گا کہ مولانا سیّد محمد نذیر حسین کو مقلد و غیر مقلد سے کیا تعلق ہے۔ وہ محدث تھے۔ لاکھوں احادیث کے محدث تھے۔ ۷۵ برس خدمت حدیث کی کی۔ ۱۹ ہزار علما کو اجازت دی۔ پڑھانے میں آپ قوتِ تمیز ناسخ و منسوخ، عام و خاص، مطلق و مقید، مجمل و مبین کی رکھتے تھے اور حدیث کے جمیع اقسام کو جانتے تھے اور راویوں کے حالات سے واقف تھے۔ فقہ کو حدیث سے حدیث کو قرآن سے تطبیق دیتے تھے، ان کے تقلید امام ہم لوگوں کے ایسی تقلید واجب نہیں تھی، وہ مخیر تھے اور ہم مجبور ہیں ۔‘‘[1]
مولانا ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ تعلق:
مولانا شاہ محمد توحید اپنے زمانے کے بڑے دل چسپ عالم تھے۔ انھوں نے حنفی و اہلِ حدیث دونوں چشمۂ علم سے استفادہ کیا اور اپنے لیے تقلید کی شاہراہ منتخب کی۔ انھوں نے بہت کثرت سے لکھا، مگر ان کی تحریریں علمی دنیا میں کوئی ہلچل نہ پیدا کر سکیں ۔ مولانا ثناء اللہ کے رد میں کئی کتابیں تالیف کیں ، مگر مولانا ثناء اللہ نے ان کی طرف کچھ التفات نہ کیا۔ ایک بار مولانا محمد توحید نے مولانا امرتسری سے جواب کا شدید تقاضا کیا۔ اس کا جواب مولانا امرتسری نے اپنے اخبار ’’ اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں بڑے دل چسپ پیرائے میں دیا۔ لکھتے ہیں :
’’مولوی توحید صاحب دانا پوری، آپ اہلِ حدیث بن کر اہلِ حدیث کے برخلاف کچھ لکھا کرتے ہیں اور جواب کے طالب رہتے ہیں اور احباب سے تقاضائے جواب کرتے ہیں ،
[1] التحقیق السدید في بیان التقلید (ص: ۱۵) بحوالہ ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک‘‘ (ص: ۸۵)