کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 293
عبدالصمد (ف ۱۳۱۸ھ) سے ان کے تعلقات ہوں گے۔ مولانا عبدالصمد ایک جید اہلِ حدیث عالم تھے، اور وقت کے مشہور اہلِ حدیث عالموں سے ان کے تعلقات دوستانہ اور برابری کے تھے، اور مولانا سید نذیر حسین صاحب سورج گڈھی مونگیری، دہلوی (ف ۱۳۲۰ھ) نواب صدیق حسن خان صاحب (ف ۱۳۰۷ھ) اور مولانا محمد بشیر صاحب سہسوانی (ف ۱۳۲۶ھ) سے استفادہ بھی کیا تھا۔ ۱۳۳۰ھ کے لگ بھگ وفات پائی۔‘‘[1] یہ امر بعید از قیاس نہیں ۔ شیخ اسحاق نجدی نے ایک عرصہ ہندوستان میں گزارا ہے اور مختلف علاقوں کی سیر کی ہے۔ عظیم آباد کے مشہور محدث علامہ شمس الحق کی مدح میں ایک قصیدہ بھی لکھا ہے۔ اس لیے کچھ بعید نہیں کہ مولانا عبدالصمد سے ان کے روابط استوار ہوئے ہوں ۔ تبلیغی مساعی: مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عبدالصمد کی تبلیغی مساعی سے متعلق لکھتے ہیں : ’’مرحوم نے اپنی تمام زندگی تبلیغِ توحید میں صرف کی۔ ان کی وفات کو چالیس برس ہو چکے ہیں ، پر آج تک اوگانواں کے سادات اور قاضی خاندان میں شرک و بدعت کا نام نہیں ، اس حال میں کہ ہر طرف بدعات کی آندھیاں چھائی ہوئی ہیں ، مگر ان کے یہاں نذر و نیاز کی رسمیں نہیں ہوتیں ، اس لیے آج تک اوگانواں کے سادات وہابی کہے جاتے ہیں ۔‘‘[2] پروفیسر مطیع الرحمن گوہرؔ لکھتے ہیں : ’’عبد الصمد اوگانوی ایک ذی قدر اور ذی شعور عالم تھے۔ انھوں نے علمِ دین کے فیضان سے عوام الناس کے قلب و جگر روشن کرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے اس سلسلے میں ان کی کتاب ’’رفع الاشتباہ عن صفات اولیاء ‘‘ عمومی طور پر قابلِ ذکر ہے۔‘‘[3] اولاد: مولانا کو اﷲ نے ایک بیٹی عطا کی جو مولانا حکیم عبدالشکور اوگانوی کے حبالۂ عقد میں آئیں ،
[1] محمد بن عبدالوہاب، ایک مظلوم اور بدنام مصلح (ص: ۶۴، ۶۵) [2] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ستمبر ۱۹۴۰ء [3] مجلہ صدی تقریبات مدرسہ منیر الاسلام (ص ۳۵۵، ۳۵۶)