کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 292
بھانجے اور مولانا عبد الصمد کے رفیقِ درس تھے، اپنی کتاب ’’یادگارِ روزگار‘‘ (تذکرہ کاملانِ پٹنہ) میں مولانا عبد الصمد کا بڑے دل چسپ پیرائے میں ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں : ’’مولوی عبد الصمد صاحب استھانوی ( اوگانوی ثم دانا پوری) راقم کے ہم سبق تھے، ماموں علیہ الرحمۃ کے شاگرد تھے۔ دانا پور مدرسہ میں تھے، غیر مقلد ہوگئے تھے۔ انتقال کر گئے، ان کی تصنیف ہے جس میں مشائخوں پر اندرونی بڑی بڑی چوٹ ہے۔‘‘[1] روابط کی وسعتیں : مولانا اہلِ حدیث عالم تھے، اس ضمن میں ان کے روابط اطراف و جوانب میں اہلِ حدیث علماء کے ساتھ کثرت سے تھے۔ جسٹس شرف الدین وارثی، شمس العلماء حافظ محب الحق عظیم آبادی، مولوی رحیم الدین استھانوی (ایڈیٹر ’’الپنچ‘‘) وغیرہم کے ساتھ بھی دوستانہ مراسم تھے۔ عرارِ نجد کے ایک توحید پرست عالم شیخ اسحاق نجدی (حفید سعید شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی) کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں : ’’شیخ عبدالرحمن بن حسن کے ایک دوسرے صاحبزادے اسحق بن عبدالرحمن بن حسن کا ذکر اب تک کسی تذکرے میں نہیں ملا، لیکن ہمیں ان سے واقفیت عجیب دلچسپ طریقہ پر ہوئی ہے۔ شوال (۵۹ھ) میں وطن جانا ہوا (اوگانواں ضلع پٹنہ) اور اپنے خاندانی کتاب خانے کی خستہ حال کتابوں کا جائزہ لینے لگا تو صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان‘‘ کا ایک نسخہ ملا، جس کے پہلے ورق پر یہ عبارت خالص عربی خط میں لکھی ملی: في ملک الحقیر الفقیر إسحٰق بن عبد الرحمٰن بن حسن بن محمد النجدي الحنبلي عفا اللّٰه عنھم۔ میری خوشی کا کیا کہنا! الٹنے پلٹنے پر آخر میں اسی خط میں ایک لمبا نوٹ ملا، جس سے ان کے علم کا بھی پتا چلتا ہے۔ صرف اسحق کا لفظ صاف طور پر پڑھا جاتا ہے۔نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب ہمارے ہاں کس طرح پہنچی؟ قرینِ قیاس یہ ہے کہ عاجز کے نانا مولانا
[1] یادگارِ روزگار (ص: ۱۱۹۲)