کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 290
اللہ کی محبت میں فانی ہیں ، اس کے اوامر و نواہی کے ساتھ باقی ہیں ، ما سویٰ اللہ کے تارک ہیں ، اور محبتِ خدا کی تمام نہیں ہو سکتی ہے جب تک اطاعت کے مراتب پوری طرح سے برتے نہ جائیں ، سو جو شخص جس مرتبہ اللہ کا تابعدار ہو گا، اسی مرتبہ کا ولی ہے۔‘‘[1]
اولیاء الرحمن کی مزید وضاحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اولیاء رحمن وہ ہیں جو اللہ کے بڑے تابعدار ہیں اور اللہ کی تابعداری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے میں ہے، اور شریعت پر عامل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص متقی ہو، بدعت سے مجتنب، شرک سے دور بھاگتا ہو۔ کبیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو۔ اگر بشریت سے کوئی گناہ یا لغزش اس سے صادر ہو تو وہ سخت نادم ہو کر تائب ہو۔‘‘[2]
مشرک شخص کبھی ولی اللہ نہیں ہو سکتا، مولانا لکھتے ہیں :
’’مسلمان با ادب کو لازم ہے کہ ایسے کفر و شرک کرنے والے اشخاص کو ولی اللہ نہ کہیں ، چاہے بظاہر مسلمان ہو یا مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہو یا مسلمان کہلاتا ہو۔ نفس الامر میں ایسا شخص خدا کا دوست نہیں ہے، کسی اور کا دوست ہے۔ مجھے خوف ہے کہ ایسوں کو ولی اللہ کہنے سے کہیں اعمال میں رخنہ نہ پڑے، اللھم احفظنا۔ جیسے اولیاء اللہ کو اولیاء اللہ نہ جاننا سخت گناہ ہے، اسی طرح عدو اللہ کو اولیاء اللہ کہنا سخت عصیان و بے ادبی کی بات ہے۔ گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی۔‘‘[3]
خرقِ عادات و کرامات کو ولایت سے کیا نسبت ہے؟ اس سے متعلق لکھتے ہیں :
’’ولایت کے لیے کرامت، خرقِ عادات، کشف، وجد ضروری چیز نہیں ہے۔ بعض اولیاء اللہ کو اللہ دیتا ہے اور بعض کو نہیں دیتا ہے۔ جن کو اللہ نے دیا ہے، ان کا مرتبہ ان سے زیادہ نہیں ہے۔ اصل ولایت کرامت فی الدین کا نام ہے۔ خوب کسی نے کہا ہے: ایمان اگر
[1] رفع الاشتباہ (ص: ۱۵)
[2] رفع الاشتباہ (ص: ۱۶)
[3] رفع الاشتباہ (ص: ۳۸)