کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 289
تھی۔ مولانا نظامِ تعلیم میں اصلاح کے قائل تھے۔ مولانا ابراہیم آروی کی اصلاحی تحریکوں میں ان کے معاون رہے اور عملی تائید کرتے رہے۔ ’’مذاکرہ علمیہ‘‘ آرہ کے جلسوں میں شرکت کرتے اور اپنی تجاویز پیش کرتے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ کی تعلیمی تحریک سے بھی وابستگی رکھتے تھے۔ مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں : ’’ندوۃ العلماء کے پہلے اجلاس میں اس صوبہ کے معدود چند افراد شریک ہوئے تھے، ان میں ایک ممدوح بھی تھے۔ دوسرے شرکاء میں مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی، مولانا وحید الحق صاحب استھانوی اور مولانا محمد احسن استھانوی کے نام ملتے ہیں ۔‘‘[1] ۱۹۰۰ء میں عظیم آباد پٹنہ میں ’’ندوۃ العلماء‘‘ کا ساتواں سالانہ جلسہ ہوا، اس میں بھی مولانا شریک تھے۔ تاہم مقامِ تاسف ہے کہ مورخینِ ندوہ نے ’’ندوہ ‘‘کی تاریخ میں مولانا کا ذکر نہیں کیا۔ شاعری: مولانا کو شاعری سے بھی شغف تھا۔ صمدؔ تخلص فرماتے تھے، بعض پرانی کتابوں میں مولانا کے منظوم قطعاتِ تواریخ ملتے ہیں ۔ تصانیف: تصنیف و تالیف سے بھی شوق تھا، چند کتابیں لکھیں ، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: 1 ’’رفع الاشتباہ عن صفات أولیاء اللّٰه ‘‘: اپنے موضوع کی یہ ایک بڑی اہم کتاب ہے۔ جس میں مولانا نے بتایا ہے کہ اس دور میں احسان و سلوک کا تصور ہی بدل گیا ہے۔ لوگ شعبدے باز مجنوں اور مجذوب سفلی عمل کرنے والے ساحروں کو اولیاء اللہ سمجھتے ہیں ۔ اسی غلط فہمی کو دور کرنے کی غرض سے مولانا نے یہ کتاب لکھی ہے۔ مولانا کی کتبِ تصوف پر بڑی گہری نظر تھی، ان کے پیشِ نظر اصلاح تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں مقتدر اربابِ تصوف کے اقوال بکثرت پیش کیے۔ ایک مقام پر ولیِ کامل کی جامع تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’صوفی کامل ولی اللہ کی تعریف مختلف الفاظ سے وارد ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے کہ
[1] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ستمبر ۱۹۴۰ء