کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 288
شاہ ممتاز الحق بہاری سے اکتسابِ فیض: مولانا عبدالصمد زاہدانہ طبیعت اور عارفانہ مزاج کے مالک تھے۔ مولانا کو سید نذیر حسین دہلوی کے تلمیذِ رشید اور مولانا عبداﷲ غزنوی کے خلیفہ شاہ ممتاز الحق بہاری سے بیعت و خلافت حاصل تھا۔ کلکتہ میں : طب کی تحصیل کے بعد مولانا کچھ عرصہ مصری بازار کلکتہ کے مدرسے میں مدرس بھی رہے۔ مصری بازار کی یہ مسجد و مدرسہ عرصہ تک ’’وہابی‘‘ باغیوں کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے۔ مقدمۂ سازش پٹنہ میں ۱۸۷۱ء کی روداد میں اس کا ذکر بار بار آتا ہے۔ کلکتہ ہی کے قیام میں مولانا کی ملاقاتیں جمال الدین افغانی[1] سے بھی رہیں ۔ مولانا علی اصغر چھپروی روایت کرتے ہیں : ’’مولوی عبدالصمد صاحب، سید جمال الدین کا تذکرہ بار بار عقیدت سے کرتے اور ان کے مختلف فقرے بھی نقل کرتے۔ ایک لطیف فقرہ ’’من برائے شما می گویم‘‘[2] مزے لے لے کر بار بار دہراتے۔‘‘[3] ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ داناپور: کلکتہ میں مولانا کا قیام زیادہ عرصہ نہیں رہا۔ مولانا داناپور میں ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کی تدریس سے منسلک ہو گئے اور پھر آخر وقت تک اسی سے وابستہ رہے۔ داناپور ہی مولانا کا مسکن بن گیا اور دانا پوری کی صفتِ نسبتی مولانا کے نام کا جزو۔ نظامِ تعلیم کی اصلاح: فنِ تدریس سے مستقل وابستگی کے باعث مولانا کو فنِ تعلیم و تدریس میں بڑی مہارت ہو گئی
[1] برصغیر پاک و ہند میں بالعموم جمال الدین افغانی کو پان اسلامزم کا بانی و علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ایسے حقائق اب سامنے آ چکے ہیں جن سے جمال الدین افغانی کا فری میسن اور استعمار کا ایجنٹ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مجلہ ’’الواقعۃ‘‘ کراچی (شمارہ ۱۶، فروری ۲۰۱۴ء) [2] میں آپ کو بتاؤں ، میں عرض کروں ۔ [3] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ستمبر ۱۹۴۰ء