کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 287
’’مدرسہ چشمۂ رحمت‘‘ میں : مولانا نے کسبِ علم کے لیے پہلا سفر غازی پور کے لیے کیا۔ جہاں ’’مدرسہ چشمہ رحمت‘‘ میں حافظ عبداﷲ محدث غازی پوری کا فیضِ درس جاری تھا، بقول مولانا مسعود عالم ندوی: ’’چشمۂ رحمت میں معرفت و علم کی سبیل جاری تھی، جہاں تشنہ کامانِ علم دور دور سے اپنی پیاس آکر بجھاتے تھے۔‘‘[1] یہاں محدث غازی پوری سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی۔ شیخ الکل سید نذیر حسین کی خدمت میں : غازی پور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مولانا حدیث و تفسیر کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مسند الوقت سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں دہلی پہنچے۔ حدیث کی تحصیل کی اور سند و اجازہ سے مشرف ہوئے۔ مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں : ’’اس کے ساتھ ساتھ وہ میاں صاحب کی درسگاہ سے ایک متاعِ بیش بہا اور بھی ہمراہ لائے جو صرف اﷲ کے برگزیدہ بندوں کو ملا کرتی ہے۔ یہ متاعِ گراں مایہ اتباعِ سنت، دعوتِ توحید اور خدمتِ دین کا غیر فانی ولولہ تھا، جس نے ان کو مرتے دم تک سرشار اور مصروفِ علم رکھا۔ دلی سے واپسی کے بعد وہ جہاں رہے اور جس حال میں رہے، اس فرض سے غافل نہیں ہوئے۔ ان کی خوش بیانی اور خطابت اس فرض کی ادائیگی میں بڑی مددگار ثابت ہوئی۔‘‘[2] طب کی تحصیل: علومِ دین سے فراغت کے بعد تحصیلِ طب کا شوق دامن گیر ہوا۔ لکھنؤ میں حکیم عبدالعزیز لکھنوی سے طب کی تحصیل کی۔ حکیم عبدالحفیظ صاحب کے مطب میں عملی تجربے کیے۔ اس وقت لکھنؤ میں علامہ عبدالحی فرنگی محلی کا شہرۂ علم اپنے عروج پر تھا۔ ان سے مولانا عبدالصمد کے علمی مذاکرے ہوا کرتے۔ اثنائے قیام لکھنؤ میں وعظ و نصائح کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
[1] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ستمبر ۱۹۴۰ء [2] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ستمبر ۱۹۴۰ء