کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 284
مولانا عبد الغفور کو شعر و شاعری سے بڑا لگاؤ تھا، تاہم افسوس کہ ان کا کلام ضائع ہو گیا۔ عربی، فارسی اور اردو ہر سہ زبانوں میں فکرِ سخن کرتے تھے۔ ان کا ایک شعر ہے: بسمل تڑپ رہے ہیں ، کہیں کٹ رہے ہیں سر ہے شور اس گلی میں ، خدا کی پناہ کا مولانا ابو طاہر بہاری، مولانا موصوف کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’آپ مشاہیر علمائے داناپور سے ہیں ۔ ذہانت آپ کی مشہور ہے۔ ادیب و شاعر بھی تھے۔ ….. اشاعتِ سنت و اماتتِ بدعت میں برابر مشغول رہتے۔ سیکڑوں بد عقیدے کو راہِ راست پر لائے۔‘‘[1] مولانا کی چند تصانیف کا سراغ مل سکا جن میں حسبِ ذیل کتب شامل ہیں : 1 ’’تذکار الوعید لأصحاب التقلید‘‘: یہ مولانا امانت اللہ فصیحی غازی پوری کی تردید میں ہے۔ مطبع نامی محمدی پٹنہ سے طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات ۴۶ ہے۔مولانا محمد مستقیم سلفی اس کتاب سے متعلق لکھتے ہیں : ’’یہ کتاب مولوی امانت اللہ غازی پوری کی ایک تحریر کا جواب ہے جس میں انھوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ آمین بالجہر اور رفع یدین نہ بخاری و مسلم میں ہے اور نہ خاندان ولی اللّٰہی کے کسی فرد سے ثابت ہے۔‘‘[2] 2 ’’الدر الفرید في رد التقلید‘‘: اس کتاب میں تقلیدِ شخصی کی تردید کرتے ہوئے عمل بالقرآن و السنۃ کی تاکید کی گئی ہے۔مطبع چشمہ فیض دہلی سے ۱۲۹۷ھ میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات ۱۶ ہے۔ 3 ’’رسالہ مناظرہ (عربی)‘‘: افسوس اس کی تفصیلات سے آگاہی نہ ہو سکی۔ مولانا عبد الغفور نے ’’مدرسہ عین الاسلام‘‘ دانا پور میں خدمتِ تدریس انجام دی۔ دانا پور کے
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء [2] جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات (ص: ۲۰۱)