کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 280
مگر افرادِ اہلِ حدیث سے آپ کو انس بہت تھا، بہرحال آپ قابلِ قدر بزرگ تھے، جماعت اہلِ حدیث کے ادہم (شاہ عین الحق مرحوم) کے آپ بہنوئی تھے۔ آپ کی عمر غالباً ۷۵ ، ۷۶ سال ہو گی۔ غفر اللّٰه لہ ورحمہ‘‘[1] وفات: عرصے تک افقِ علمی پر چھائے رہنے کے بعد بالآخر ۲۷ صفر ۱۳۵۴ھ بمطابق ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء کو یہ ’’بلبل باغ خوش مقالی‘‘ ہمیشہ کے لیے رفیقِ اعلیٰ سے جا ملا اور شاہی مسجد پھلواری (المعروف سنگی مسجد) کے مشرقی دروازے کے قریب سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی وفات پر برصغیر کے علمی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔[2] 
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۷ جون ۱۹۳۵ء [2] شاہ محمد سلیمان پھلواروی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: خاتمِ سلیمانی، شمس المعارف، دیوان فائز (ص: ۴۶)، نزہۃ الخواطر (ص: ۱۲۳۸، ۱۲۳۹)، آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۳۶۹۔۳۷۳)، یادِ رفتگاں (ص: ۱۵۶۔۱۶۲)، مسلم شعرائے بہار (۱/ ۲۳۴۔۲۳۸)، تذکرہ علمائے حال (ص: ۷۹)، کاروانِ رفتہ (ص: ۱۱۲، ۱۱۳)، شرفا کی نگری (۱/۲۹۸، ۲۹۹)، نثر الجواھر و الدرر (ص: ۴۹۰۔۴۹۱)، اصحابِ علم و فضل (ص ۷۸۔۱۰۳)، ہند و پاک میں عربی ادب (ص: ۱۱۲)، ارضِ بہار اور مسلمان (ص: ۳۵۸ تا ۳۶۰)، انیس معاشرہ (ص: ۷۴۔۷۹)، بِہارِ دانش (ص: ۱۰۰)