کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 28
شہرت پائی، اور مہاویر کا تعلق اسی خطۂ ارضی سے تھا۔سکھ مذہب کے دسویں گورو گوبند سنگھ جی نے پٹنہ ہی میں آنکھ کھولی۔ موبدانِ مجوسی نے بھی ایک عرصہ تک پٹنہ کو اپنا مرکزِ علم و دانش بنائے رکھا۔مشہور مجوسی عالم آذرکیوان نے پٹنہ ہی میں وفات پائی۔
بہار کی اسلامی تاریخ کا آغاز بھی نہایت شاندار طریقے سے ہوا۔ الخلیل (بیت المقدس، فلسطین) کے خانودائہ زبیری ہاشمی کے بزرگ امام محمد تاج فقیہ اپنی مجاہدانہ تگ و تاز کے ساتھ یہاں ۵۷۶ھ کو فاتحانہ داخل ہوئے اوراس وقت منیر کے ہندو راجہ کو شکست دے کر بہارکی پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ امام محمد تاج فقیہ کے ۲۴ برس بعد ترک سپہ سالار بختیار خلجی نے پورے بہار و بنگال کو اسلامی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔
بہار کی مسلم مذہبی شخصیات میں مخدوم شیخ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری، قاضی محب اللہ بہاری، شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی، امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی اورعلامہ سیّد سلیمان ندوی رحمہم اللہ بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات گزری ہیں ۔
بہار کی تاریخی حیثیت بھی متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے نمایاں رہی ہے۔ قدیم ہندوستان کی تاریخ کو اگر بہار کی تاریخ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔بہار کا دارالخلافہ ’’پاٹلی پتر‘‘ متحدہ ہندوستان کا دارالخلافہ تھا۔ چندر گپت موریہ اس پہلی عظیم الشان سلطنت کا حکمران تھا۔ متحدہ ہندوستان کا سب سے بڑا بادشاہ اشوکِ اعظم تھا،جو چندر گپت موریہ کا پوتا اور بہار کا باسی تھا۔اس کی حدودِ سلطنت مشرق میں برما، جنوب میں سری لنکا، شمال میں تبت اور مغرب میں افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ برصغیر کی تاریخ میں اس سے بڑھ کر نہ اس سے قبل کوئی حکمران گزرا ہے اور نہ ہی اس کے بعد کسی کو اتنی بڑی سلطنت مل سکی۔ مغل دور میں صرف شیر شاہ سوری کی مثال ملتی ہے جس نے مغلوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور متحدہ ہندوستان پر حکومت قائم کی، اس کی زندگی میں مغل بادشاہ ہمایوں کو ہندوستان میں داخل ہونے کی ہمت نہ ہو سکی۔ شیر شاہ سوری کا تعلق بہار کے شہر سہسرام سے تھا۔
سیّد احمد شہید کی جماعت مجاہدین کا سب سے بڑا مرکز بھی اندرونِ ہند صادق پور ( پٹنہ ) تھا۔ یہاں ایک مجاہد خانوادے نے سید احمدشہید کی شہادت کے بعدایثار و قربانی اور مجاہدانہ تگ و تاز کی غیر فانی