کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 279
ادیب، خوش بیان خطیب، پر اثر واعظ، موقع شناس مقرر اور بڑے بڑے بزرگوں کے حلقۂ سے فیضیاب صوفی تھے۔ ان کو تاریخ کا شوق اور عربی نظم و نثر کا اچھا ذوق تھا۔ اچھے کتب خانوں اور کتابوں کی تلاش رہتی تھی اور اس حیثیت سے وہ اپنے ہم عصروں میں پورا امتیاز رکھتے تھے ….وعظوں میں عجب اثر تھا، کبھی رلاتے اور کبھی ہنساتے تھے، ان کے سنجیدہ چٹکلے اور ظریفانہ نکتے لوگوں کو بے حد محظوظ کرتے تھے، ان کی آواز بہت بلند، سریلی اور موثر تھی، ان کا لحن نہایت دلپذیر تھا۔ مثنوی خاص انداز سے پڑھتے تھے کہ سننے والے جھوم جھوم جاتے تھے، ان کے وعظوں سے ہر خیال اور ہر قماش کے لوگ یکساں دلچسپی رکھتے تھے۔ جاہل، عالم، مولوی، مشائخ، دڑھ منڈے اور بزرگ ریش، نئے پرانے تعلیم یافتہ اور اہلِ علم سب لذت اندوز ہوتے تھے …. پورے پچاس برس تک ہندوستان کا گوشہ گوشہ ان کے پرکیف و پر اثر خطبوں سے معمور رہا ہے، جس جلسہ میں وہ ہوتے تھے، ان کے سوا ہر آواز ماند پڑ جاتی تھی۔ جلسہ کے اہم موقعوں پر ان کی طوطی گفتاری بڑی بڑی پیچیدگیوں کو حل کر دیتی تھی، … شاہ صاحب کی ذات ایک عجیب جامع ہستی تھی، ایسے لوگ اب پیدا نہ ہوں گے۔ زمانہ بدل رہا ہے، ہوا کا رخ اور طرف ہے، وہ قدیم اور جدید کے درمیان حلقۂ اتصال تھے۔ اب قدیم بھی جدید ہو رہا ہے اور جدید جدید ترین بن رہا ہے۔‘‘[1] مولانا ثناء اللہ امرتسری کا تعزیتی شذرہ: مولانا ابو الوفاء ثناء اﷲ امرتسری نے اپنے ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ میں لکھا: ’’مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی مشہور صوفی، خوش بیان مثنوی خواں اس ہفتہ دارالفناء سے دار البقاء کو انتقال کر گئے۔ مرحوم فنِ حدیث میں حضرت میاں صاحب (مولانا سید نذیر حسین صاحب) دہلوی کے شاگرد تھے۔ کتاب معیار الحق مصنفہ میاں صاحب پر آپ کی تقریظ بھی ہے۔ اس کے بعد آپ نے صوفیانہ رنگ اختیار کر کے حال قال کو پسند کیا۔
[1] یادِ رفتگاں (ص: ۱۵۶۔۱۶۲)