کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 277
بطن سے شاہ عز الدین ندوی تھے۔شاہ سلیمان کے نواسے شاہ عز الدین ندوی علمی حلقوں میں معروف ہیں ۔ ۲۳ شعبان ۱۳۲۳ھ کو پھلواری میں پیدا ہوئے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ لکھنؤ سے علوم کی تکمیل کی۔ بلند پایہ مدرس تھے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ (لکھنؤ)، ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘، ’’رانچی‘‘ اور ’’مدرسہ شمس الہدیٰ‘‘ (پٹنہ) میں تدریس کی ذمے داریاں نبھائیں ۔ تصانیف میں ’’تاریخ علومِ حدیث‘‘، ’’حیاتِ امام احمد بن حنبل‘‘ اور ’’سیداتِ اسلام‘‘ وغیرہا شامل ہیں ۔ ۱۱ مئی ۱۹۷۷ء کو پورنیہ (بہار) میں وفات پائی۔ شاہ سلیمان پھلواروی کے چاروں صاحبزادے بہار کی علمی دنیا میں معروف ہیں ۔ بڑے صاحبزادے شاہ حسن میاں بہت اچھی صلاحیتوں کے مالک تھے، مگر ان کی عمر نے وفا نہ کی۔ ۱۳۰۶ھ میں پیدا ہوئے۔ شاہ علی نعمت پھلواروی، شاہ بدر الدین پھلواروی اور شاہ صفت اﷲ پھلواروی جیسے بزرگوں کے سایۂ عاطفت میں پروان چڑھے۔ ۲۵ کتابیں تالیف کیں ۔ سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ضخیم کتاب کی تیاری میں تھے کہ ۱۳۳۱ھ میں اجل نے آ لیا۔ شاہ حسن میاں کے ایک صاحبزادے مولانا حسن مثنی ندوی تھے، جو ۹ صفر ۱۳۳۱ھ بمطابق ۱۸ جنوری ۱۹۱۳ء کو پیدا ہوئے۔ وہ اپنے وقت کے مشہور ادیب، سحر بیان مقرر اور بلند پایہ صحافی تھے۔ مولانا حسن مثنی نے یکم ذیقعدہ ۱۴۱۸ھ بمطابق یکم مارچ ۱۹۹۸ء کو وفات پائی۔ شاہ سلیمان کے دوسرے صاحبزادے شاہ حسین میاں ۱۰ ربیع الثانی ۱۳۲۱ھ میں پیدا ہوئے، انھوں نے دینی علوم کی تحصیل کے بعد ایف۔اے تک انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے۔ بعارضۂ فالج ۶ ربیع الثانی ۱۳۶۶ھ بمطابق ۱۹۴۷ء وفات پائی۔شاہ حسین میاں کے صاحبزادے سید علی اکبر قاصدؔ کراچی کے سماجی حلقوں میں بہت معروف تھے، شعر و سخن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے، ان کا مجموعۂ کلام بھی شائع ہو چکا ہے۔ علی اکبر اسکوائر (شرف آباد، کراچی) انہی کے نام سے منسوب ہے۔ عالمِ شباب ہی میں انھوں نے وفات پائی۔ شاہ سلیمان کے تیسرے صاحبزادے مولانا شاہ غلام حسنین ۶ جمادی الاخریٰ ۱۳۱۷ھ کو پیدا ہوئے۔ بی۔اے تک انگریزی کی تعلیم حاصل کی، پھر تحریکِ ترکِ موالات کے زمانے میں اُن کے والد نے انھیں انگریزی تعلیم ترک کروا کر عربی کی طرف متوجہ کیا۔ ندوۃ العلماء سے دینی علوم کی تحصیل