کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 275
کے طول و عرض میں پھیل چکا تھا۔ ندوہ کے ایک جلسہ منعقدہ لکھنؤ میں ہندوستان کے چار سلیمان جمع ہو گئے تھے۔ یعنی قاضی سلیمان منصور پوری (مصنف رحمۃ للعالمین)، مولانا سلیمان اشرف بہاری، سید سلیمان ندوی اور خود شاہ سلیمان پھلواروی۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل کئی کئی سلیمان پیدا ہو گئے ہیں ، لیکن ان میں اصلی سلیمان میں ہوں ، کیوں کہ میں سلیمان بن داود ہوں ع
پریاں نئی نئی ہیں سلیماں نئے نئے
یہ سن کر مجمع بے اختیار ہنس پڑا۔ پھر فرمایا: ’’پہلے سلیمان فرد تھا، اب رباعی ہے، چار سلیمان یکجا ہیں ۔‘‘
شاہ سلیمان کے والدِ گرامی حکیم داود پٹنہ کے معروف اطبا میں سے تھے۔۔ ان کے نام کی رعایت سے شاہ سلیمان کی مہر میں {وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ } کنندہ تھا۔ رنگون میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ تھا، بعض مولوی صاحبان نے اہلِ کانفرنس پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ شاہ سلیمان بھی نواب محسن الملک کے ہمراہ جلسے میں شریک ہوئے۔ تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا:
’’یہاں کے مولویوں نے کانفرنس والوں پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے، جس میں شاید میں بھی داخل ہوں ، مگر غور کیجیے کہ نواب محسن الملک تو مہدی ہیں (نواب صاحب کا اصل نام مہدی علی خان تھا) ان کو کون مسلمان دجال کہے گا؟ اور مجھ پر تو کفر کا فتویٰ لگ ہی نہیں سکتا کہ خود اﷲ تعالیٰ کی شہادت ہے کہ {وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا} ’’اور سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا، بلکہ شیطانوں نے کفر کیا تھا۔‘‘
مجمع ان نکتہ آفرینیوں سے بے حد محظوظ ہوا اور تنگ نظر مولویوں کا فتویٰ محض ان چٹکلوں سے ہوا ہو گیا۔
شاعری:
شاہ سلیمان شاعر بھی تھے۔ اردو کی چند غزلیں فرزند احمد صفیر بلگرامی آروی کو، اور فارسی کی غزلیں شاہ علی حبیب نصر پھلواروی اور شاہ وصی احمد پھلواروی کو دکھائیں ۔ عربی قصائد و اشعار میں اپنے استادِ گرامی علامہ حکیم عبدالحمید پریشاں صادق پوری سے استفادہ کیا۔ چونکہ ابتدا میں طبابت کا شغل تھا،