کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 274
ایک موقع پر علامہ اقبال شاہ سلیمان پھلواروی کے نام اپنے مکتوب گرامی میں لکھتے ہیں : ’’آپ کو اﷲ تعالیٰ نے کمالِ روحانی کے ساتھ علم و فضل سے آراستہ کیا ہے۔‘‘[1] سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک کی حمایت میں جو پہلی آواز طبقۂ مشائخ و صوفیہ سے بلند ہوئی، وہ شاہ سلیمان پھلواروی کی آواز تھی۔ سرسید احمد خان نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ بابت محرم ۱۳۱۲ھ کے شمارے میں شاہ سلیمان کا ذکر کیا ہے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ کے ایک سالانہ جلسے میں شاہ سلیمان نے جو تقریر کی، اسے سرسید نے اپنے اخبار میں ’’شاہ سلیمان کا نیچریانہ وعظ‘‘ کی سرخی سے طبع کیا۔ شاہ صاحب ’’ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ علی گڑھ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ وہ ’’ندوۃ العلماء‘‘ لکھنؤ کے کبار مویدین سے تھے۔ پانچ مرتبہ ندوہ کے سالانہ جلسوں کی صدارت کی۔ ’’انجمن حمایتِ اسلام‘‘ لاہور کی حمایت میں بھی پیش پیش رہے۔ کان پور میں جب ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ کی تاسیس ہوئی تو شاہ سلیمان پھلواروی کو ان کی غیر حاضری میں اس کا امیر منتخب کیا گیا۔ اپنے عہد کی سیاست میں بھی شاہ صاحب کو بڑا اثر و نفوذ حاصل تھا۔ شاہ سلیمان فرماتے ہیں : ’’ایک بار چھپرہ میں گاندھی جی نے میرے پیروں کو پکڑ کر کہا کہ مسلمانوں سے گائے کی قربانی موقوف کرا دیجیے۔ میں نے کہا: بے شک، بشرطیکہ آپ اپنی قوم سے بت پرستی موقوف کرا دیجیے۔ وہ ہنس کر کہنے لگے: اس کو کوئی نہیں مان سکتا۔‘‘[2] شاہ سلیمان کا شمار ان بالغ النظر افراد میں ہوتا ہے: جنھوں نے ابتدا ہی میں مسئلہ فلسطین میں یہودیوں کی شاطرانہ چالوں کو سمجھا، جیسا کہ موصوف کے اس فتوے سے ظاہر ہوتا ہے جو انھوں نے ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ (کان پور) کے امیر کی حیثیت سے دیا تھا۔ یہ فتویٰ جریدہ ’’الجامعۃ العربیۃ‘‘ (فلسطین) کی ۱۱ فروری ۱۹۳۵ء کے شمارے میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ لطافت و بذلہ سنجی: شاہ سلیمان پھلواروی بڑے بذلہ سنج اور زندہ دل بزرگ تھے۔ ان کی خوش بیانیوں کا شہرہ ملک
[1] انوارِ اقبال (ص: ۱۸۰) بحوالہ اقبال کے ممدوح علما (ص: ۱۳۷) [2] خاتمِ سلیمانی (۴/۱۱۴)