کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 273
’’عوام الناس عید کے ظاہر سے انبساط و احتشام اور اکل و شرب کے مشاغل میں ایسے مصروف ہو جاتے ہیں کہ گویا یہ ماہ مبارک ایک بلا تھی جو ٹل گئی۔‘‘[1] ٭ اپنے فرزند شاہ حسن میاں کے نام ایک مکتوب گرامی میں فرماتے ہیں : ’’فرزندِ مَن! پیری و مریدی و بیعت و ارشاد کی توضیح جو بعضے متاخرین بزرگان نے کی ہے، اس کو کتاب و سنت پر پیش کرو۔ جو موافق ہو، ا سے قبول کرو۔ میں ان اقوال کی تردید نہیں کرتا، مگر ’’الحق أحق بالاتباع‘‘[2] ٭ شاہ محمد عزیز فریدی کے نام لکھتے ہیں : ’’میرے قلب پر یہ وارد ہوا کہ عموماً اس زمانے کے مشائخین و پیرزادگان کا موجودہ طریقہ جس کو وہ درویشی و عرفان سمجھتے ہیں ، مثلاً: رسوماتِ عرس و نیاز و نذر و حال و قال و جوش و خروش و زبانی الفاظ توحیدیہ وغیرہ وغیرہ، یہ ہر گز عرفان نہیں ہے۔‘‘[3] فضل و کمال: شاہ سلیمان پھلواروی بڑے وسیع المشرب تھے۔ طبقۂ صوفیہ و مشائخ میں نہایت ہردلعزیز، علما و فضلا میں مقبول، مبلغین و واعظین میں معروف اور جدید علمی تحریکوں کے اہم زعما سے تھے۔ انہی صفاتِ گوناگوں کی بنا پر علامہ شبلی نعمانی شاہ سلیمان کو ’’شاہِ بے کلاہ‘‘ کہا کرتے تھے۔[4] علامہ اقبال بہار کے اس صوفی منش عالم کے بڑے معتقد تھے۔ موصوف نے جب فلسفۂ تصوف پر قلم اٹھایا تو قدیم و جدید اور مشرق و مغرب کے تفاوت سے پیدا ہونے والے مسائل، نیز وحدۃ الوجود وغیرہ سے متعلق سوالات شاہ سلیمان پھلواروی سے دریافت کیے اور استفادہ کیا۔ اس سلسلے میں دونوں بزرگوں کے درمیان خط کتابت بھی رہی۔[5]
[1] شمس المعارف(ص: ۳۱۸) [2] شمس المعارف (ص: ۶۴) [3] شمس المعارف (ص: ۱۳۲) [4] ’’فاران‘‘ (بجنور) جولائی ۱۹۲۵ء [5] ملاحظہ ہو مولانا حسن مثنی کا مضمون: ’’اقبال اور شاہ سلیمان پھلواروی‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’ریاض‘‘ (کراچی) ۱۹۵۵ء