کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 271
’’تقلید سے بھاگو کیونکہ تقلید گمراہی ہے اور مقلد ہلاکت کی راہ پر ہے۔‘ ‘[1]
شاہ سلیمان کا مسلک اہلِ حدیث سے انتساب بہت مختصر عرصے تک رہا، لیکن اکابرِ اہلِ حدیث سے ان کے روابط تا حینِ حیات رہے۔ پھلواری میں سب سے پہلے مولانا شاہ علی نعمت پھلواروی نے مسلکِ اہلِ حدیث اختیار کیا۔ شاہ علی نعمت، شاہ سلیمان کے اعزہ میں سے تھے۔ شاہ سلیمان پھلواروی نے ان کا ذکر اپنے مکاتیب میں بھی کیا ہے۔ شاہ سلیمان کی اہلیہ کے برادر بزرگ شاہ عین الحق تھے، جو اپنے دور کے مشہور اہلِ حدیث عالم تھے۔ شاہ سلیمان پھلواروی کے حقیقی ماموں شاہ صفت اﷲ فریدی پھلواروی کے صاحبزادۂ گرامی شاہ محمد ہارون نے بھی مسلکِ اہلِ حدیث اختیار فرما لیا تھا۔
علامہ شمس الحق ڈیانوی سے بھی شاہ سلیمان کے روابط استوار تھے۔ محدث موصوف کی کتاب ’’التحقیقات العلیٰ بإثبات فرضیۃ الجمعۃ في القریٰ‘‘ کے آخر میں شاہ سلیمان پھلواروی کی تائیدی تحریر بھی شامل ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ کتاب مذکور میں جمعہ فی القریٰ کا اثبات کیا گیا ہے، جس کے حنفیہ مخالف ہیں ۔
شاہ سلیمان کی وفات پر مشہور اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا ابو الوفا ثناء اﷲ امرتسری نے اپنے تعزیتی مکتوب بنام شاہ حسین میاں میں لکھا:
’’السلام علیکم! اخبارات میں شاہ صاحب کے انتقال کی خبر پڑھ کر صدمہ ہوا، پھلواری میں اب ہمارا تعلق کیا رہا۔ وا حسرتا، یاران من تنہا مرا بگداشتند۔ آخر سب کی یہی راہ ہے۔ غفر اللّٰه لہ ورحمہ۔‘‘
ابو الوفاء ثناء اﷲ‘‘[2]
غلبۂ تصوف:
تاہم بعد میں شاہ صاحب پر تصوف کا رنگ غالب ہوا اور تا دم آخر یہی رنگ ان پر غالب رہا۔ پھلواری میں اپنی ایک الگ خانقاہ ’’خانقاہِ سلیمانیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ پھلواری کی خانقاہوں کے
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر): ۱۳ جنوری ۱۹۳۳ء
[2] خاتم سلیمانی (۳/ ۷)