کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 270
’’وکان في بدایۃ حالہ یعمل ویعتقد في الحدیث ولا یقلد أحداً، یدل علیہ تقریظہ علی معیار الحق للمحدث الدھلوي، ثم رغب إلی المتصوفین، ویقتدي برسوم المشایخ من حضور الأعراس واستماع الغناء بالآلات والرقص والتواجد‘‘[1]
’’ابتدا میں آپ کا عمل و اعتقاد حدیث کے مطابق تھا اور کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے، جیسا کہ (نذیر حسین) محدث دہلوی کی کتاب ’’معیار الحق‘‘ پر آپ کی تقریظ سے ظاہر ہے۔ پھر آپ کی رغبت صوفیوں کی طرف ہو گئی، رسومِ مشائخ کی اتباع کرنے لگے، عرسوں میں شریک ہوتے اور سماع میں رقص و وجد کرتے۔‘‘[2]
مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں :
’’ہمارے ناظرین میں سے بہت سے احباب مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی کو جانتے ہوں گے۔آپ بڑے مشہور خطیب اور خوش کلام مثنوی خواں واعظ ہیں ۔ آج کل حنفی مذہب صوفی مشرب ہیں ، مگر ایک زمانہ ان پر گزرا ہے کہ آپ حضرت مولانا سیّد محمد نذیر حسین صاحب دہلوی مرحوم مغفور سے حدیث پڑھ کر تقلید کے حق میں وہی رائے
رکھتے تھے جو میاں صاحب مرحوم کی کتاب ’’معیار الحق‘‘ کے ساتھ مطبوع ہے، جس میں ایک شعر یوں ہے:
واھرب عن التقلید فھو ضلالۃ إن المقلد فی سبیل الھالک
[1] نزہۃ الخواطر (۸/ ۱۶۹)
[2] نزہۃ الخواطر کا ایک اردو ترجمہ چند برس قبل دار الاشاعت کراچی کی جانب سے شائع ہوا ہے، ہماری پیش کردہ عبارت کا جو ترجمہ فاضل مترجم نے کیا ہے، اسے ملاحظہ کر کے، اس کا لطف لیجیے اور معیارِ ترجمہ کا اندازہ لگائیے:
’’اپنی ابتدائی حالت میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے، حدیث پر اعتقاد رکھتے اور کسی کی تقلید نہیں کرتے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو معیارِ حق کے جانچنے کے لیے محدث دہلوی کی ذات کتنی اہم ثابت ہوئی، اس کے بعد صوفیوں کی طرف منتقل ہو گئے اور مشائخ کے رسوم کی اتباع کرنے لگے، مثلاً عرسوں میں تشریف لاتے، گانے بجانے میں شرکت فرماتے اور ان لوگوں کی طرح ناچتے اور وجد کرتے۔‘‘ (’’چودھویں صدی کے علمائے برصغیر‘‘ ترجمہ ’’نزہۃ الخواطر‘‘: ۸/ ۲۴۴)