کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 269
مَنْ يَشَاءُ } [المائدۃ: ۵۴] (یہ فضل ہے اللہ کا، وہ جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے) کا مبشر اقبال مندی: { أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ} [حمٓ السجدۃ :۳۰] (نہ ڈرو نہ غم کرو بلکہ تمھیں مبارک ہو وہ جنت جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا) کا مژدۂ جانفزا سنائے اور رضوان جنات نعیم { رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ } [المائدۃ: ۱۱۹] (اللہ ان سے راضی ہوا) ندا دے اور کہے: { كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ } [المرسلات: ۴۳] (اپنے عمل خیر کے صلے میں خوب کھاؤ پیو اور خوش رہو)۔
زیادہ والسلام خیر الختام
الراقم العاجز
محمد نذیر حسین
شاہ سلیمان اور مسلکِ اہلِ حدیث:
شاہ محمد سلیمان نے سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی بارگارہِ علم و فضل سے ۱۲۹۷ھ میں سند و اجازۂ حدیث حاصل کیا۔ اسی زمانے میں مولانا تلطف حسین عظیم آبادی کی توجہ سے سید نذیر حسین دہلوی کی تصنیف ’’معیار الحق‘‘ کا ایک دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ کتاب ’’معیار الحق‘‘ کا اصل مبحث ردِ تقلید ہے، بعض فروعی مسائل پر بھی بحث کی گئی ہے، جس میں اصحاب الحدیث کے مسلک کی تائید کی گئی ہے۔ اس کتاب پر عالی مرتبت مصنف کے متعدد تلامذہ نے تقاریظ ثبت فرمائیں ، جن میں شاہ محمد سلیمان پھلواروی بھی شامل ہیں ۔ شاہ سلیمان نے اپنی تقریظ عربی میں لکھی اور اس میں حسبِ ذیل دو شعر بھی شامل کیے:
واھرب عن التقلید فھو ضلالۃ إن المقلد في سبیل الھالک
باگل سرخ کہ اصلش عرق روئے نبی است رتبۂ لالۂ نعمان نہ برابر گیرند[1]
امرِ واقع یہ ہے کہ شاہ محمد سلیمان نے اس زمانے میں مسلکِ اہلِ حدیث اختیار فرما لیا تھا۔ ہماری تائید مولانا حکیم عبدالحی حسنی ندوی کی حسبِ ذیل تحریر سے بھی ہوتی ہے:
[1] ’’تقلید سے دور رہو، کیوں کہ وہ گمراہی ہے اور یقینا مقلد تباہی کے راستے پر ہے۔ لالا اور نعمان کے پھول اس سرخ گلاب کے برابر میں نہیں رکھنے چاہئیں کہ جو فی الحقیقت نبی کے عرقِ مبارک سے بنا ہے۔‘‘