کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 265
مگر ایک روز تائیدِ ایزدی سے اپنے ایک عظیم آبادی ہم درس حکیم عبدالحمید پریشاں ؔکے ہمراہ خفیہ طور پر لکھنؤ سے روانہ ہوئے اور گورکھپور ہوتے ہوئے گکھٹہ (چھپرہ) پہنچے اور کچھ عرصہ یہیں روپوش رہے۔ حکیم داود کی شادی شاہ محمد امام بن نعمت اﷲ پھلواروی کی صاحبزادی مسماۃ بی بی آل زہرا سے ہوئی۔ اﷲ نے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی عطا کی، بڑے صاحبزادے شاہ محمد سلیمان اور چھوٹے صاحبزادے مولانا محمد ایوب ہیں ۔ حکیم صاحب موصوف نے ۴ جمادی الاولیٰ ۱۲۸۶ھ کو وفات پائی۔ کسبِ علم کے مختلف مراحل: شاہ سلیمان کی عمر ۱۰ برس تھی، جب ان کے والد گرامی نے انتقال فرمایا۔ والد کے انتقال کے بعد آپ کی تربیت ننھیال میں ہوئی۔ ابتدائی کتابیں اپنے ماموں شاہ صفت اﷲ فریدی و دیگر علما سے پڑھیں ۔ اس کے بعد حصولِ علم کی غرض سے وطن سے باہر نکلے۔ ’’مدرسہ چشمۂ رحمت‘‘ غازی پور میں بعض کتبِ درسیہ کی تحصیل مولانا حافظ عبداﷲ غازی پوری سے کی۔ کتبِ درسیہ کی تکمیل لکھنؤ میں مولانا عبدالحی لکھنوی سے کی اور حدیث کی تحصیل و تکمیل مولانا احمد علی سہارن پوری اور سید نذیر حسین دہلوی سے کی۔ ۱۳۰۴ھ میں عازمِ حرمین شریفین ہوئے اور حجاز میں شیوخِ حرمین سے اسناد حاصل ہوئیں ۔ بقول شاہ عزالدین ندوی : ’’آپ کے شیوخِ حدیث فی الہند والحجاز کی تعداد ستر سے متجاوز ہے۔‘‘[1] صادق پور کے مشہور ادیب و شاعرِ قادر الکلام علامہ حکیم عبدالحمید پریشاں ؔ سے عربی ادب میں خصوصی استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ طب کی تحصیل مولانا ابو الحسنات عبدالحی فرنگی محلی، حکیم عبدالعزیز دریا آبادی اور حکیم مرزا مظہر حسین خان بن حکیم مسیح الدولہ سے کی۔ شاہ سلیمان کو مختلف شیوخِ طریقت سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی، جن میں شاہ علی حبیب نصرؔ پھلواروی، مولانا فضل رحمان گنج مراد آبادی، حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی، مولانا عبدالحی حنفی لکھنوی، شاہ محمد یعقوب دہلوی وغیرہم شامل ہیں ۔جب شاہ سلیمان پھلواروی بغداد گئے تو وہاں سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے اخلاف میں سے السید عبدالرحمان المحض (سجادہ نشیں ) کے مہمان ہوئے اور ان سے سلسلۂ قادریہ کی اجازت لی۔
[1] ماہنامہ ’’رفیق‘‘ (پٹنہ) علمائے بہار نمبر۔ جنوری فروری ۱۹۸۴ء