کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 261
سے بھی بڑھ کر ان کے مسلک و نظریات کے امین و پاسبان تھے۔ مولانا ہارون عالی کردار، شریف النفس اور عمدہ اوصاف سے متصف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہ عین الحق نے اپنی اکلوتی صاحبزادی موصوف کے حبالۂ عقد میں دے دی تھی۔ مولانا ہارون دینی و سماجی خدمات میں پیش پیش رہا کرتے تھے۔ عرصہ تک پٹنہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے رکن رہے، کچھ عرصہ اس کے چیئرمین بھی رہے۔ پٹنہ کا معروف محلہ ہارون نگر انہی کے نام سے موسوم ہے۔ شاہ محمد ہارون کی وفات ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو پٹنہ میں ہوئی۔[1] مولاناشاہ احمد حبیب ندوی پھلواروی: مولانا شاہ عین الحق کے فرزندِ ارجمند شاہ احمد حبیب ۳ جمادی الاخریٰ ۱۳۱۷ھ میں پیدا ہوئے۔ ۱۶ برس کی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ (لکھنؤ) سے تعلیم کی تکمیل کی۔ شاہ احمد حبیب کا شمار اپنے عہد میں بہار کی جماعت اہلِ حدیث کے نمایاں افراد میں ہوتا تھا۔ ایک زمانے میں انھیں بہار کی جماعت اہلِ حدیث کا امیر بھی منتخب کیا گیا تھا، لیکن چونکہ اس انتخاب سے بعض حلقے نا خوش تھے اور جماعت کی دھڑے بندی برقرار تھی اس لیے شاہ احمد حبیب نے کمالِ تقویٰ کا ثبوت دیتے ہوئے خود کو اس امارت سے علاحدہ کر لیا۔ ’’تنظیم جماعت اہلِ حدیث‘‘ کے عنوان سے شاہ احمد حبیب کا ایک مضمون ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کی ۱۸ جنوری ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوا، جس میں انھوں نے امارت سے علاحدگی کا اعلان کیا اور احبابِ جماعت سے درد مندانہ درخواست کی کہ وہ اختلافات بھلا کر دین کی خدمت انجام دیں ۔ سیاسیات میں کانگریس کے زبردست حامی تھے۔ ۱۳ ذیقعد ۱۳۷۱ھ میں شاہ احمد حبیب نے وفات پائی۔[2]
[1] مولانا شاہ محمد ہارون فریدی پھلواروی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’آثاراتِ پھلواری شریف‘‘ (ص: ۳۵۷، ۳۵۸)، ’’اصحابِ علم و فضل‘‘ (ص: ۲۰۴)، ’’مولانا شاہ عین الحق پھلواروی۔ احوال و آثار‘‘ (ص: ۴۸) [2] شاہ احمد حبیب ندوی پھلواروی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’مولانا شاہ عین الحق پھلواروی۔ احوال و آثار‘‘ (ص: ۳۹، ۴۰)