کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 259
باندھتے تھے۔‘‘[1]
مولانا امام خاں نوشہروی کا تاثر:
مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی اپنا ذاتی تاثر تحریر فرماتے ہیں :
’’راقم (ابو یحییٰ) بھی صاحبِ ترجمہ (شاہ عین الحق) کی زیارت اور تذکیر سے دو مرتبہ مستفیض اور مستفید ہوا۔ اسے اہلِ حدیث کانفرنس اور مولانا ثناء اللہ کی برکات کہیے۔ مرحوم (مولانا ثناء اللہ) نے اس حلقۂ میں کیسے کیسے ستودہ صفات علمائے حق کو جمع کر دیا۔ پہلی مرتبہ امرتسر کے جلسہ کانفرنس اور دوسری مرتبہ علی گڑھ کے اجلاس میں یہ موقع ملا۔ شاہ عین الحق صورت کے اعتبار سے سراپا جمال، تقویٰ و سیرت میں ڈوبے ہوئے، اس پوری بزم میں دونوں حیثیتوں سے ان کا مثیل دیکھنے میں نہ آیا، مولوی ثناء اللہ کا بھی عہدِ شباب تھا، قد و قامت برنائی و قوت گفتار دونوں سے بہرئہ وافر! اگر مجلس میں عین الحق نہ ہوتے تو نظر انہی پر جمتی، لیکن شاہ صاحب کے سامنے ان کی تابانی بھی شرما جاتی۔ مرحوم (مولانا ثناء اللہ) اس مجلس میں جن علماء کی تکریم زیادہ کرتے ان میں حافظ صاحب غازی پوری کے بعد شاہ صاحب ہی کا درجہ تھا۔ اللہ اللہ!
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں [2]
ازدواج و اولاد:
مولانا نے مختلف اوقات میں تین نکاح کیے۔ پہلا نکاح تقریباً ۱۳۰۸ھ میں شیخ عبد الرحیم (ساکن گھگھٹہ، ضلع چھپرہ) کی صاحبزادی سے ہوا۔ دوسرا نکاح ڈاکٹر جمال الدین چھپروی کی صاحبزادی سے ہوا۔ تیسرا نکاح کس خاندان میں ہوا، اس کا علم نہیں ہو سکا۔ اللہ ربّ العزت نے مولانا کو ایک صاحبزادی مسماۃ سمیہ اور فرزند شاہ احمد حبیب عطا کیے۔ یہ دونوں ہی مولانا کی دوسری اہلیہ سے ہوئے۔
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء
[2] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء