کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 257
زندگی میں جتنا حسین اور نورانی تھا، آج بھی ہو بہو وہی معلوم ہو رہا تھا۔ حکیم آباد کی یہ آخری رونق تھی، جو اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔‘‘[1] مولانا شاہ عین الحق نے ۱۱ جمادی الاخریٰ ۱۳۳۳ھ کو لکھنؤ میں وفات پائی اور آپ کے جسدِ خاکی کوحکیم آباد گھگھٹہ (ضلع چھپرہ، بہار) میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں مقامِ تدفین پھلواری لکھا گیا ہے،[2] جو درست نہیں ۔ بقول سیّد حسن آرزوؔ ندوی: ’’پھلواری کے تمام قرابت مند چھپرہ پہنچ گئے تھے۔ آرہ وغیرہ سے بکثرت عقیدت مند نمازِ جنازہ کے لیے آگئے تھے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ جس وقت نعش گھگھٹہ لائی گئی ہے، اس وقت گھگھٹہ میں پانچ ہزار سے زیادہ صرف مسلمانوں کا مجمع تھا۔ ہندو عقیدت مند بھی بکثرت حاضر تھے۔ آپ کے حقیقی بھانجے حضرت مولانا شاہ محمد محی الدین صاحب موجودہ امیر شریعت صوبہ بہار اور سجادہ نشیں خانقاہِ مجیبیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور وہیں گھگھٹہ میں علم و عمل کا وہ آفتاب ہمیشہ کے لیے سپردِ خاک کر دیا گیا۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون۔‘‘[3] مولانا ثناء اللہ امرتسری کا تعزیتی شذرہ: مولانا کی وفات پر علامہ ثنا اللہ امرتسری نے اپنے اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ میں تعزیتی شذرہ تحریر فرمایا تھا۔ اس کی علمی و تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسے یہاں درج کر رہا ہوں ۔ مولانا امرتسری لکھتے ہیں : ’’اہلِ حدیث کا ادہم‘‘ ’’حضرت ابراہیم ادہم کی بابت جو حکایت مشہور ہے کہ انھوں نے تخت چھوڑ کر فقیری لی تھی، اہلِ حدیث میں بھی ایک شخص اس کی نظیر تھا، جس کی جدائی کی آج ہم جماعت
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء [2] نزہۃ الخواطر (۱۴۱۶) [3] المغراف في تفسیر سورۃ ق: ر