کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 256
’’مرحوم شاہ صاحب آخری عمر میں کچھ علیل سے رہتے تھے۔ لوگوں نے لکھنؤ جاکر علاج کرانے کا مشورہ دیا، آپ تیار ہو گئے اور چلتے وقت کہنے لگے کہ خدا جانے لکھنؤ سے زندہ آنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں ۔ لکھنؤ پہنچنے کے بعد قیام گاہ پر جانے کے لیے ایک پالکی گاڑی کرائے پر لی گئی۔ آپ کے داماد مولوی شاہ ہارون صاحب فریدی ساتھ تھے۔ اور آپ کا ملازم عبد الغنی بھی۔ شاہ ہارون صاحب تو کسی دوسرے ٹانگے پر اسباب کے ساتھ بیٹھے اور ملازم پالکی گاڑی کے اوپر۔ پالکی گاڑی کی کھڑکیاں کھلی تھیں اور حضرت شاہ صاحب اس میں تنہا تھے، کچھ دور آگے چل کر کسی راہ گیر نے کوچبان کو آواز دی کہ اندر تو دیکھو۔ اس نے گاڑی روک کر جو دیکھا تو حضرت شاہ صاحب کے جسم کا اکثر حصہ پائے دان میں تھا اور ناک یا کان سے خون بھی جاری تھا، لیکن خون تازہ دیکھ کر شبہہ ہوا تھا۔ قیام گاہ پر کسی طرح پہونچ کر سول سرجن کو معاینے کے لیے بلایا گیا، اس نے صرف آپ کی آنکھیں کھول کر دیکھیں اور کہا: بے شک روح نکل چکی ہے۔ اسی وقت ہر جگہ تار کھڑکنے لگے اور ہر طرف ایک کہرام سا مچ گیا۔ آپ کے جسدِ نورانی کو ایک پلنگ پر رکھ کر ریل کے مال ڈبے میں رکھا گیا۔ ساتھی بھی اسی میں بیٹھے۔ میں شام مغرب کے قریب اپنے حضرت والد ماجد کے ساتھ سیوان سے پھلواری اسٹیشن پر اترا تو دیکھا کہ ایک کثیر مجمع اہلِ پھلواری کا کھڑا ہے۔ میرے بھائی شاہ غلام حسنین ندوی نے وہیں پہلی بار اس حادثہ جانکاہ کی اطلاع دی۔ ہم لوگ غالباً اس قافلہ کی روانگی کے بعد کسی اور گاڑی سے روانہ ہوئے اور گھگھٹہ حکیم آباد پہنچے۔ ہمارے پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کہ ایک افسردہ و دل شکستہ اژدحام کے کاندھوں پر حضرت شاہ صاحب آرہے ہیں ۔ حکیم آباد میں انسانوں کا ایسا ازدحام نہ اس سے پہلے ہوا نہ بعد میں ۔ لاشہ پہنچتے ہی ایک کہرام مچ گیا، فوراً غسل کی تیاری شروع ہو گئی۔ میں اس وقت موجود تھا، مجھ سے قسم لے لیجیے میں نے اپنی عمر میں کسی لاشے کو اتنی میٹھی اور پُر سکون نیند سوتے نہیں دیکھا۔ آنکھیں بالکل بند تھیں ۔ چہرے پر کسی قسم کا اثرِ موت معلوم نہیں ہوتا تھا۔ چہرہ