کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 254
’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کے زمانۂ تدریس میں مولانا پر فالج کا حملہ بھی ہوا جو مناسب تدبیر اور معقول علاج سے جلد ہی دور ہو گیا۔ مولانا کی خدمتِ تدریس کے نتیجے میں یقینا ایک بڑی تعداد مستفید ہوئی، تاہم ہمیں مولانا کے چند تلامذۂ کرام ہی کے اسما پر اطلاع ہو سکی، جو حسبِ ذیل ہیں : 1 مولانا محمد احمد مؤی (ناظم ’’مدرسہ فیض عام ‘‘ مؤ، اعظم گڑھ)۔ 2 مولانا عبد اللہ شائق مؤی۔ 3 مولانا عبد الرحمن دیودھاوی۔ 4 مولانا زین الدین پیغمبر پوری۔ 5 مولانا محمد حسن کھگول دانا پوری۔ 6 مولانا شاہ محمد ہارون فریدی پھلواروی مولانا عبد المالک آروی کے والدِ گرامی کو بھی شاہ صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل تھا جیسا کہ مولانا آروی نے لکھا ہے: ’’میرے والد مرحوم حافظ صاحب (غازی پوری) کے مرید اور حدیث میں شاہ (عین الحق) صاحب کے شاگرد تھے۔ خاکسار کو یہ شرف ہے کہ حضرت حافظ صاحب نور اللہ مرقدہ نے الف با کی ابتدا کرائی۔ فقیر نے بچپن میں والد مرحوم کے ساتھ حضرت حافظ صاحب اور جناب شاہ صاحب قدس سرہ کے حلقۂ درس میں شرکت کی ہے۔‘‘[1] قلمی خدمات: مولانا شاہ عین الحق نے چند کتابیں بھی سپردِ قلم و قرطاس فرمائی تھیں مگر افسوس کہ اب صرف ایک تصنیف ’’المغراف في تفسیر سورۃ ق‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ یہ کتاب اردو میں ہے اور اس کی تصنیف سے فاضل مصنف ذی الحجہ ۱۳۲۰ھ میں فارغ ہوئے تھے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ مصنف کی زندگی ہی میں ۱۳۲۱ھ بمطابق ۱۹۰۳ء میں طبع ہوئی تھی، بعد ازاں مصنف ممدوح کے فرزند مولانا شاہ احمد حبیب نے ڈاکٹر سیّد محمود کے ایماء پر ۱۹۳۸ء میں برقی مشین پریس بانکی پور پٹنہ سے طبع کروائی۔ یہ
[1] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء