کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 253
کے ایک دوست مولانا حکیم محمد محسن سملوی، مولانا امرتسری کو لکھتے ہیں :
’’ مولانا شاہ عین الحق صاحب میرے پھوپھا مولانا شاہ علی نعمت کے شاگرد تھے۔ شاہ عین الحق صاحب کا مکان میرے مکان سے چند فرلانگ پر ہے اور مجھ سے غایت دوستی تھی۔ اخیر میں مدرسہ احمدیہ آرہ میں وہ مدرس اوّل تھے۔ محض حدیث پڑھاتے تھے۔ اپنے مواعظ میں اہلِ قرآن کا رد کیا کرتے تھے۔ حدیث کو ستونِ دین فرمایا کرتے تھے۔‘‘[1]
چند برس پیشتر دار التذکیر لاہور سے بھی ’’شرعۃ الحق‘‘ کی ایک طباعت ہوئی، اس میں کتاب کے جدید مقدمہ نگار نے انہی دعاوی کو دہرایا ہے جس کی حقیقت واضح کر دی گئی ہے۔
تدریس:
مولانا شاہ عین الحق نے مختلف اوقات میں تدریس کی ذمے داریاں نبھائیں ۔ استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ غازی پوری جب ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ سے دہلی تشریف لے گئے تو مولانا بحسبِ خواہش علامہ عبد العزیز رحیم آبادی ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری ’’مدرسہ احمدیہ آرہ کو مبارک‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں :
’’تمام بہی خواہانِ مدرسہ احمدیہ آرہ کو جناب مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری کی علیحدگی سے جو صدمہ ہوا تھا، وہ اس خبر کے سننے سے کسی قدر تخفیف پذیر ہو جائے گا کہ جماعت اہلِ حدیث کے ابراہیم ادھم یعنی جناب مولانا شاہ محمد عین الحق صاحب سابق سجادہ نشیں پھلواری مدرسہ موصوفہ کی خدماتِ اوّل مدرسی منظور فرما کر مشغول کار ہو گئے ہیں ۔ یہی صاحب ہیں جن کا نام نامی میں نے جناب حافظ عبد اللہ صاحب کی خدمت
میں بغرضِ منظوری پیش کیا تھا اور صاحبِ ممدوح نے آپ کو اس خدمت کے قابل فرمایا تھا۔ (ہفت روزہ) ’’اہلِ حدیث‘‘ کی طرف سے مدرسہ کو مبارک۔ خداوندِ کریم شاہ صاحب کو ہمتِ وافر عطا فرما دے۔ آمین‘‘[2]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۷ ستمبر ۱۹۳۷ء
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث (امرتسر) ۲۹ جنوری ۱۹۰۹ء