کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 251
’’علمائے آرہ بہت بڑے عالم ہیں ۔ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ مولوی ثناء اللہ اہلِ حدیث سے خارج نہیں ہے، اس لیے ہم ان کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں ۔‘‘[1]
یہ مسئلہ تو برقرار رہا، تاہم اس واقعے سے مولانا پھلواروی کی مسلمہ علمی حیثیت ضرور نمایاں ہوتی ہے۔ مولانا ثناء اللہ کی نظر میں شاہ عین الحق کا کیا مقام تھا؟ اس کا صحیح اندازہ تو ان کے جریدہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں ان کے قلم سے نکلنے والی ان تحریروں ہی سے لگایا جا سکتا ہے جن میں شاہ صاحب کا ذکر ہوا۔ مولانا ثناء اللہ، شاہ عین الحق کو ’’جماعت اہلِ حدیث کا ابراہیم اُدہم‘‘ کہا کرتے تھے۔
دیگر اکابرِ اہلِ حدیث سے روابط:
شاہ عین الحق پھلواروی کا شمار جماعت اہلِ حدیث کے اکابرِ علم میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے تقریباً تمام کبار اہلِ حدیث علما سے مولانا کے ذاتی روابط استوار تھے۔ کئی ایک علما اور ان کے ساتھ مولانا کے معاصرانہ روابط کا ذکر ان کی سوانح کے مختلف گوشوں میں آچکا ہے۔ مولانا کی اپنے معاصر علما کے ساتھ روابط پر نظر ڈالنے سے ایک بڑی حقیقت یہ نمایاں ہوتی ہے کہ مولانا تقریباً اپنے تمام ہی معاصر علما سے عمر میں خاصے کم تھے، مگر وہ تمام علما مولانا پھلواری کے بے پناہ خلوص اور زہد و تقوے کی وجہ سے ان کا از حد احترام کرتے تھے۔
شاہ عین الحق اور فتنۂ انکارِ حدیث:
پٹنہ میں مولاناعین الحق کے ایک معاصر حنفی عالم حافظ محب الحق عظیم آبادی تھے۔ بعد میں ان کا واضح رجحان انکارِ حدیث کی طرف ہو گیا تھا۔ اپنی کتاب ’’بلاغ الحق‘‘ میں حافظ محب الحق
عظیم آبادی لکھتے ہیں :
’’مولانا عین الحق صاحب علیہ الرحمۃ، سابق گدی نشین پھلواری نے جو خانقاہ کی بدعتوں سے گھبرا کر گدی چھوڑی تھی، میرے مخلص دوست تھے۔ شرعۃ الحق کا مسودہ مجھ سے سن کر فرمانے لگے کہ بھئی اس سے میرے بہت سے عقائد کی صحت ہو گئی، للہ اس کی نقل دو کہ میں بار بار دیکھوں ، تاکہ یہ آیتیں دماغ میں اتر جائیں ، کیونکہ وہ بھولتی جاتی ہیں اور جمے ہوئے عقائد
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۲ فروری ۱۹۱۸ء