کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 249
فلاں شخص اس واقعہ سے انکار کرتا ہے کہ ایک عورت (مریم نامی) نے ساری عمر قرآن ہی سے گفتگو کی۔ کیا ایسا فی الواقع ممکن ہے یا محض افسانہ ہے؟ اس کے بعد اسی شخص (شاہ محمد ہارون پھلواروی) سے آپ کی صاحبزادی سمیہ کی نسبت کے متعلق مراسلت شروع ہوئی، آپ نے تمام معاملات خط کے ذریعے طے کیے اور خطوں میں ہر سوال کا جواب قرآن ہی سے دیا، چنانچہ آخری سوال تھا کہ مہر کیا ہو گا؟ اس کا جواب شاہ صاحب نے دیا {بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ } [آل عمران: ۱۲۵] یہ روایت مجھ سے مولانا تمناؔ عمادی پھلواروی نے بیان کی ہے۔‘‘[1]
فریضۂ حج کی سعادت:
مولانا نے تین مرتبہ فریضۂ حج کی سعادت حاصل کی۔ پہلی بار ۱۳۰۸ھ بمطابق ۱۸۹۱ھ میں فریضۂ حج ادا کیا۔ دوسری مرتبہ کا سال معلوم نہ ہو سکا۔ تیسری مرتبہ ۱۳۲۳ھ/ ۱۹۰۶ء میں ۔
۱۳۲۳ھ میں مولانا نے براہِ بمبئی (موجودہ ممبئی ) و عدن، حجازِ مقدس کی راہ لی۔ ۱۴ شعبان ۱۳۲۳ھ کو مولانا کا جہاز بمبئی کے سمندری راستے سے روانہ ہوا۔ جہاز میں زیادہ تر بوہرے موجود تھے، تاہم خوش قسمتی سے انھیں چند اہلِ حدیث رفقا بھی میسر آئے، جن میں مولانا محمد یعقوب صادق پوری، مولانا حکیم عبد الغفور رمضان پوری، مولانا محمد زبیر ڈیانوی وغیرہم شامل ہیں ۔ ۱۹۰۶ء میں حج کے موقع پر کئی ایک ہندوستانی اہلِ حدیث علما موجود تھے۔ مولانا عبد الوہاب صدری دہلوی، مولانا عبد الحکیم نصیر آبادی اور ڈاکٹر اشرف خاں علی گڑھی بھی موجود تھے۔ موخر الذکر تقریباً روزانہ شاہ صاحب سے ملتے
رہتے تھے۔ شاہ صاحب دورانِ سفر بیمار بھی ہوگئے تھے، تاہم بخیر و عافیت یہ سفر انجام پذیر ہوا۔[2]
علامہ شمس الحق عظیم آبادی سے ربطِ خاص:
مولانا شاہ عین الحق اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے مابین بڑا گہرا ربط تھا۔ ایک رشتے سے شاہ عین الحق، محدث عظیم آبادی کے ہم زلف بھی تھے۔ محدث شہیر عظیم آبادی کی وفات پر جو نامہ گرامی
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام ‘‘ (لاہور) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث ‘‘ (امرتسر) ۱۶ مارچ ۱۹۰۶ء