کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 248
اس قدر محظوظ ہوئے کہ چند اشعار شاہ صاحب کی مدح میں لکھے، جو برائے طبع ارسال ہیں ، براہِ کرم درج اخبار فرمائیں ، کیونکہ ایک صاحبِ کیفیت کے قلم سے نکلے ہیں ۔ ہر ادائش دلفریب و دلربا ست جانشین مصطفی و مرتضا ست چشمہ خبرست و خود عین الحق ست حامی شرع محمد مصطفا ست شد دلم محظوظ از تذکیر او او امام وقت و پیر رہنما ست منکر او منکر شرع نبی ست او وہابی نیست او ہادی است مدح خوان او مکرم بے خلاف زانکہ او دین خدا را رہنما ست دوستادر ما نظام الدین حکیم خبر او خواہم کہ ما را جلسہ خواست[1] ذوقِ شعر و سخن: مولانا عین الحق بڑے سخن فہم، نثر نگار اور شاعر تھے۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اردو اور فارسی میں حسنؔ تخلص کرتے تھے۔ شاعری بھی سراسر مبنی بر اصلاح و ہدایت تھی۔ افسوس کہ ان کا کلام ضائع ہوگیا۔ ایک اردو نعت ملتی ہے جو راقم نے اپنی کتاب ’’مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، احوال و آثار‘‘ (ص: ۳۶) میں نقل کی ہے۔ ایک عربی قصیدہ بھی ملتا ہے جو مولانا کی طرف سے ان کے شاگرد نے آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے سالانہ جلسہ امرتسر ۱۹۱۳ء میں پڑھا تھا۔[2] ’’دن اور رات کا مکالمہ‘‘ مولانا کی مشہور نظم ہے، جس کا ذکر سیّد حسن آرزوؔ اور شاہ محمد جعفر پھلواروی نے اپنے مضامین میں کیا ہے، تاہم یہ نظم راقم کو نہ مل سکی۔ عربی ادب سے دلچسپی: مولانا کو عربی ادب سے خاص دل چسپی تھی۔ خود بھی بڑی ادیبانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ عربی میں شاعری بھی کرتے تھے، جس کا ذکر گذشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ شاہ محمد جعفر ان کے ذوقِ ادب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ادب سے بڑی دلچسپی تھی۔ ایک بار مولوی سلیمان صاحب ڈیانوی نے ان کو خط لکھا کہ
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳ مارچ ۱۹۱۱ء [2] روداد اہلِ حدیث کانفرنس بابت سال دوم متضمن کارروائی جلسہ سالانہ منعقدہ بمقام امرت سر (ص: ۸، ۹)