کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 247
سیّد حسن آرزوؔ ندوی، مولانا کے ظاہری و باطنی سراپے سے متعلق لکھتے ہیں : ’’مزاج میں بے حد سادگی، منکسر المزاجی، مروت اور رحمدلی، سخاوت میں وہ کریم ابن کریم تھے .... قد لانبا، گندمی رنگ، لانبا چہرہ، دبلے پتلے، ہنس مکھ، جواد، سخی، فیاض، یتیموں ، مسکینوں اور بیواؤں کی ہمیشہ خبر لینے والے، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کی عظمت، برابر والوں سے محبت کرنے والے تھے۔‘‘[1] علم و فضل: مولانا جامع العلوم اور صاحبِ علم و فضل تھے۔ ان کے علم و فضل کے اظہار کے لیے ایک واقعہ نقل کرنا مناسب ہو گا جس سے شاید آج لوگ مولانا کے مقام و مرتبے کا اندازہ لگا سکیں گے۔ ۲۲ جنوری ۱۹۱۱ء کو مولانا ثناء اللہ امرتسری نے پٹنہ کے صاحبانِ جماعت کو اطلاع دی کہ وہ ۲۳ جنوری کو ایک وفد کے ہمراہ پٹنہ آ رہے ہیں ، تاہم بعض موانع کی بنا پر وہ نہ آ سکے۔ مولانا عبد السلام مبارک پوری ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں لکھتے ہیں : ’’وفد اہلِ حدیث پٹنہ میں نہیں پہنچا اور اس سے جو کبیدگی اہلِ پٹنہ کو لاحق ہوئی اس کے دہرانے کی حاجت نہیں ، لیکن اہلِ پٹنہ کے آنسو پوچھنے کے لیے جناب مولانا شاہ عین الحق صاحب تشریف لائے اور حکیم نظام الدین صاحب کے یہاں ان کا بیان ہوا۔ مکان سامعین سے بھر گیا۔ بڑی کثرت سے لوگ شریک ہوئے۔ یوں تو جناب شاہ صاحب کے بیان میں عموماً سحر بیانی ہوتی ہے، لیکن اس روز کا بیان ’’إن من البیان لسحراً‘‘ کا پورا مصداق تھا۔ آیتِ کریمہ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (45) وَدَاعِيًا إِلَى اللّٰهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا } کا بیان تھا۔ ایسا جامع اور پُر لطف و عام فہم و نکات سے مملو بیان تھا کہ اس کا مزا سامعین کے دل سے بھولنا ہی نہیں ۔ سامعین میں ہر مذہب کے لوگ شامل تھے۔ اہلِ حدیث، حنفیہ، ساذج، صاحبانِ تصوف و صاحبانِ وجد و شیعہ، سب ہی تھے۔ سب نے اپنا اپنا فائدہ حاصل کیا۔ سامعین میں ایک صاحبِ وجد صوفہ بھی تھے جو
[1] المغراف في تفسیر سورۃ ق: د۔ر