کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 246
شاہ محمد جعفر پھلواروی لکھتے ہیں : ’’عبد الرؤف صاحب قنوجی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت شاہ صاحب حج کے لیے بمبئی کے راستے جا رہے تھے تو میں اس وقت بمبئی میں موجود تھا، اتنی بے شمار خلقت آپ کو رخصت کرنے کے لیے آئی تھی کہ میں حیران تھا، یہ مجمع صرف اہلِ حدیث پر مشتمل نہ تھا، بلکہ ہر مشرب کے لوگ موجود تھے۔ لوگوں نے آپ کی دست بوسی شروع کر دی اور میں نے بعد میں دیکھا تو مصافحوں اور دست بوسیوں کی وجہ سے آپ کا ہاتھ سوجا ہوا تھا۔ یہیں بمبئی کا انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ میں ایک جگہ لوٹا لے کر استنجا کے لیے بیٹھ گیا، ذرا دیر میں پیچھے ایک خفیف سی آہٹ ہوئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو شاہ صاحب ہاتھوں میں کچھ ڈھیلے لیے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ فرمانے لگے: یہ سنت ہے۔ یہ کہا اور ڈھیلے رکھ کر چلے گئے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خلوص سے آپ کو کس قدر بہرہ تھا اور اتباعِ سنت کا کتنا خیال تھا۔‘‘[1] زمانۂ سجادگی کا واقعہ ہے کہ آپ کا ایک نور باف مرید سخت بیمار پڑ گیا۔ وہ بہت غریب مگر بے حد دیندار تھا۔ شاہ صاحب نے اس کی عیادت کا ارادہ کیا، مگر مصنوعی جاہ پسند آڑے آئے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ خانقاہِ مجیبیہ کا سجادہ نشیں ایک نور باف کے گھر جائے۔ شاہ صاحب اس وقت خاموش ہو گئے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو شاہ صاحب غائب تھے۔ ڈھونڈنے پر اسی نور باف مرید کے گھر اس حال میں ملے کہ وہ غریب دم توڑ رہا تھا اور شاہ صاحب اس کے سر بالیں سورۂ یٰسین کی تلاوت فرما رہے تھے۔[2] زمانۂ سجادگی ہی کا ایک واقعہ ہے کہ آپ کا ایک مقروض تھا جسے پانچ سو روپے ادا کرنا تھا، تنہائی میں موقع پاکر حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ، لہٰذا معاف کر دیجیے۔ آپ نے اس کی درخواست فوراً قبول کرلی۔ لیکن جب آپ کے کارندوں کو خبر ملی تو اعتراضات شروع کر دیے۔ آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ اب تو ہم معاف کر چکے۔[3]
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء [2] ایضاً۔ [3] ایضاً۔