کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 245
کے ساتھ ذکر کیا۔ مولانا شاہ عین الحق کی دینی یادگار کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں : ’’ضلع بستی کے قدیم قصبہ بانسی میں تقریباً نصف صدی سے مدرسہ اسلامیہ کے نام سے حضرت مولانا شاہ عین الحق صاحب پھلواروی کی ایک دینی یادگار اب تک قائم ہے۔ کتاب و سنت اور توحیدِ خالص کی اشاعت کا جو فرض اس مدرسہ نے انجام دیا ہے، وہ مسلمانانِ ضلع پر روشن ہے۔‘‘[1] اخلاق و عادات: مولانا کی طبیعت گوناگوں اوصافِ حمیدہ سے متصف تھی۔ نہایت عبادت گزار، زہد و قناعت کے مرقع اور شب زندہ دار تھے۔ سادہ طبیعت اور سادہ زندگی کی روش پر قائم تھے۔ کتاب و سنت ہی کو مدارِ عمل ٹھہراتے تھے اور اس پر کسی طعن کی پروا نہ کرتے۔ مولانا حکیم سیّد عبد الحی حسنی ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں مولانا کے تذکرے میں لکھتے ہیں : ’’کان عالماً صالحاً، متعبداً، حسن العقیدۃ، یعمل بالنصوص‘‘[2] ’’ آپ صالح عالم، عبادت گزار، خوش عقیدہ اور نصوصِ صریحہ پر عمل پیرا تھے۔‘‘ کمالِ زہد و ورع کی وجہ سے مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دیگر اکابر آپ کو ابراہیم بن اَدھم کہا کرتے تھے۔ مولانا حکیم عبد الغفور رمضان پوری جو مولانا شاہ عین الحق کے تیسرے سفرِ حج کے رفیق تھے، اپنے سفر نامۂ حج میں شاہ صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’پیر طریقت مولانا الحاج شاہ محمد عین الحق صاحب پھلواروی جو قبل میں دو بار حج و مسجد نبوی طیبہ کی طرف شد رحال کر چلے تھے۔ وہ عین الحق امام پاک بازاں کہ دین ہے جس کی دینداری پہ نازاں ‘‘[3]
[1] ’’اہلِ حدیث‘‘ (دہلی) ۱۵ جنوری ۱۹۶۱ء [2] نزہۃ الخواطر (ص: ۱۳۱۶) [3] ’’الرحلۃ الحجازیۃ‘‘ (ص: ۱۷)