کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 242
شیوخِ حدیث: مولانا کے ہندوستانی اساتذۂ حدیث کی تعداد تو محدود ہے، تاہم انھوں نے تین بار فریضۂ حج ادا کیا اور وہاں کچھ عرصہ قیام بھی کیا۔ اثنائے قیام حجازِ مقدس میں مختلف علما و مشائخ سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور ان سے استفادہ بھی کیا۔ سید حسن آرزو ندوی لکھتے ہیں : ’’اس کے علاوہ ہندوستان و حجاز کے بہت سے اکابر شیوخِ حدیث سے آپ کو سند ملی تھی۔‘‘[1] تاہم افسوس ہے کہ مولانا کے ان اساتذۂ گرامی کے ناموں سے آگاہی نہ ہو سکی۔ میدانِ دعوت و ارشاد: شاہ عین الحق نے میدانِ دعوت و ارشاد میں وعظ و تذکیر اور تزکیہ باطن کے ذریعے جو خدمات انجام دیں ، وہ لائقِ قدر اور قابلِ ستایش ہیں ۔ ہزارہا خلقت مولانا کے وعظ و نصیحت سے متاثر ہوکر جادئہ مستقیم پر گامزن ہوئی۔ سید حسن آرزوؔ ندوی لکھتے ہیں : ’’قوم کی اصلاح کا ایک خاص جذبہ ان کے اندر تھا۔ مسلمانوں کی موجودہ پستی کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے۔ وہ ایک خوش بیان واعظ تھے۔ ان کے وعظ کا ہر ٹکرہ دل پر تیر و نشتر بن کر چبھ جاتا تھا۔ وہ اصلاحِ امت کے لیے بے چین و مضطرب نظر آتے۔ وہ حق کے مقابلے میں کسی سے مرعوب نہ ہوتے۔ وہ صداقت اور ایمان داری کے ہمالیہ تھے۔‘‘[2] مولانا کا وعظ بڑا سریع الاثر ہوا کرتا تھا۔ منقول ہے کہ جب مولانا حج کے لیے تشریف لے گئے تو ایک مقام پر ڈاکوؤں نے گھیر لیا اور سارا مال لوٹ لیا، مگر ایسی حالت میں بجائے خوفزدہ ہونے کے مولانا نے ایسا وعظ کہا کہ ڈاکوؤں نے تلواریں توڑ دیں ، تمام سامان واپس کر دیا اور ہمیشہ کے لیے تائب ہو گئے۔ مولانا نے راہِ سلوک و طریقت سے آنے والی بدعات و خرافات کا بھی خصوصی رد کیا اور اس پر مولانا کو یہ نہیں کہا جا سکتا:
[1] المغراف في تفسیر سورۃ ق: د [2] المغراف في تفسیر سورۃ ق: د